قائداعظم محمد علی جناح کی اکلوتی صاحبزادی دینا واڈیا 3 نومبر 2017 ء کوعمر کی 98 بہاریں دیکھ کر گزر گئیں۔ لوگ اس وقت سوشل میڈیا پر ان کی مختلف تصاویر کے ساتھ تعزیتی پیغامات شیئر کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے اس موقع پر تنقید کے نشتر بھی چلائے ہیں مگر اطمینان کی بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ دینا واڈیا قائداعظم کے انتقال کے بعد سوائے ایک بار کے کبھی پاکستان نہ آ سکیں۔ اس کی وجہ جاننے
سے قبل ذرا ماضی سے واقعات سے گرد جھاڑ لیتے ہیں۔تاریخ کے ساتھ کھلواڑ کی کوششیں ہمارے ہاں تسلسل کے ساتھ ہوئی ہیں۔ بہت ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو سنسر کرنے کی جسارت کی گئی۔ بھلا ہو کچھ لوگوں کا جو مزاحم ہوئے اور تقریر اصلی حالت میں پریس تک پہنچ گئی اور آج تک ان کے وژن کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح جناح صاحب کی تقسیم کے دنوں میں دورہ سری نگر کے دوران کشمیریوں سے کی گئی باتیں بھی شعوری کاوش کے ذریعے دبا دی گئیں۔شنید ہے کہ فوجی آمر جنرل ضیاءالحق نے جناح صاحب کی کوئی ڈائری بھی دریافت کر لی تھی، جس کے ذریعے تاریخ کے تانوں بانوں میں اپنی مرضی کے رنگ بھرنا مقصود تھا۔ اس واقعے کی تفصیل معروف براڈ کاسٹر برہان الدین حسن کی کتاب ”پس پردہ” میں موجود ہے۔ ہمارے دوست صحافی محمود الحسن نے اپنے ایک کالم کے ذریعے ہمیں اس جانب متوجہ کیا تھا۔ برہان الدین حسن لکھتے ہیں:”جنرل ضیاء اسلامائزیشن کے ایجنڈے کے حق میں اور پارلیمانی جمہوریت کے خلاف قائداعظم کی تقریروں اور تحریروں میں من مانی ترمیم و تحریف کرنے سے بھی نہیں چوکے۔ اپنی بنائی ہوئی مجلس شوریٰ کے
ساتویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے 12؍ اگست 1983ء کو انہوں نے ایک عجیب و غریب سراسر جھوٹا دعویٰ کیا کہ نیشنل آرکائیوز (National Archives) میں محفوظ قائداعظم کی ایک ذاتی ڈائری ملی ہے، جواب تک شائع نہیں ہوئی۔ اس میں ان کی ایک تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’قائداعظم سربراہِ ریاست کے منصب کو انتہائی مؤثر اور مضبوط دیکھنا چاہتے تھے اور جمہوری نظام کے خلاف تھے۔
انہوں نے کہا کہ قائداعظم اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ پارلیمانی نظام حکومت صرف برطانیہ میں اب تک کامیابی سے چل رہا ہے اور کہیں نہیں۔ وہ آگے لکھتے ہیں کہ صدارتی نظام حکومت پاکستان کے لئے زیادہ مناسب ہے چنانچہ اس دستاویزی شہادت کے پیش نظر جو دراصل قائداعظم کے حکم کا درجہ رکھتی ہے نظام حکومت کی بابت تنازع ختم ہو جانا چاہئے کیونکہ ان کی پسند کا صدارتی نظام حکومت نہ صرف جدید دور
کے تقاضے پورے کرتا ہے بلکہ وہ اسلام کے بھی انتہائی قریب ہے۔جنرل ضیا کی اس دریافت کا قومی میڈیا پر زبردست چرچا رہا اور خوب تشہیر کی گئی اور اخبارات نے ڈائری کے متعلقہ صفحہ کو پہلے صفحہ پر شائع کیا۔ پی ٹی وی نے محض ڈائری دکھانے اور اس کی بابت خبر نشر کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس موضوع پر بحث و مباحثہ کے کئی پروگرام بھی ٹیلی کاسٹ کئے جن میں ضیاء کے پسندیدہ اور منظور نظر دانشوروں
، علمائے کرام اور صحافیوں نے حصہ لیا۔ انہوں نے صدر کی عظیم دریافت کو اس صدی کا اہم واقعہ قرار دیا اور ضیا کے اس دعویٰ کی مکمل حمایت کی کہ قائداعظم کے واضح اور دو ٹوک فرمان کے پیش نظر پاکستان کے لئے صرف صدارتی نظام حکومت ہی موزوں ہے کوئی اور نہیں۔یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ جنرل ضیاء کے اپنے دماغ کا کمال تھا یا ان کے مشیر اس انوکھی اختراع کے ذمہ دار تھے تاہم یہ بات اس
قدر مضحکہ خیز تھی کہ کسی نے اسے درست نہیں سمجھا۔ بالآخر جب ممتاز دولتانہ اور کے ایچ خورشید نے کسی ایسی ڈائری کے موجود ہونے کی پرزور تردید کی تو یہ افسانہ اپنی موت آپ مر گیا۔ اس کے بعد ضیا الحق یا ان کے رفقائے کار میں سے کسی نے اس فرضی ڈائری کا کبھی ذکر نہیں کیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ قومی پریس نے بھی اس بات میں چپ سادھ لی اور بابائے قوم کے خلاف اس قسم کی مہمل الزام تراشی کو بے نقاب نہیں کیا۔
‘‘اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ضیاء الحق نے اپنے دور میں کس طرح تاریخ کے حوالوں پر اثر انداز ہونے کی کیسی بھونڈی کوشش کی۔ اس طرح کا ایک واقعہ گزشتہ سال 18 دسمبر کو مجھے بھی سُننے کو ملا جس کا تعلق جناح صاحب کی صاحب زادی دینا واڈیا سے متعلق ہے۔ بیگم ثریا خورشید کے شوہر کے ایچ خورشید جناح صاحب کے پرائیویٹ سیکریٹری اور بعد میں آزادکشمیر کے صدر
کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ثریا خورشید نے جناح صاحب کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ فلیگ ہاوس کراچی میں کافی وقت گزارا اور ان یادوں کو اپنی کتاب ”فاطمہ جناح کے شب و روز” میں محفوظ کیا ہے۔ اس مناسبت سے وہ جناح خاندان کے بارے میں براہ راست معلومات رکھتی ہیں۔انٹرویو کے دوران کے ایچ خورشید کا ذکر چلا توان کی دینا واڈیا سے ملاقات کا احوال بھی سننے کو ملا۔
بیگم ثریا خورشید کے الفاظ یہ تھے:”خورشید صاحب نے بتایا تھا کہ اپنے امریکا کے آخری سفر میں وہ دینا واڈیا کے پاس گئے تھے۔ وہ نیویارک کے قریب کسی چھوٹے ٹاؤن میں رہتی ہیں۔ وہ انہیں بڑی اچھی طرح ملیں۔ خورشید صاحب نے پوچھا کہ آپ کے والد نے ایک ملک بنایا، آپ وہاں کیوں نہیں آتیں؟ انہوں نے بتایا کہ میں پاکستان آنا چاہتی تھی۔ اس وقت ضیا الحق کی حکومت تھی۔ انہوں نے مجھے ایک میمورنڈم بھیج دیا کہ آپ اس پر
تائیدی دستخط کریں کہ قائداعظم فلاں فلاں بات چاہتے تھے۔ دینا نے کہا کہ میں صحیح طرح سے نہیں جانتی کہ وہ کیا چاہتے تھے، اس لیے دستخط کر کے میں اپنے والد کی نیک شہرت کے نقصان کا باعث نہیں بن سکتی۔”اگرچہ بیگم ثریا خورشید کی گفتگو کے اس اقتباس سے یہ واضح نہیں کہ ضیاء الحق دینا واڈیا سے کن باتوں کی تصدیق چاہتے تھے لیکن اوپر والے حوالے کی روشنی میں ان کی خواہش سمجھنا مشکل نہیں۔ لیکن
سلام ہے دینا واڈیا کی دیانت کو، کہ انہوں نے ایک ڈکٹیٹر کی خواہش پر اس کی مرتب کی گئی قائداعظم سے منسوب باتوں کی تصدیق سے انکار کردیا تھا۔ وہ ضیا الحق کے دور میں تو پاکستان نہ آ سکیں لیکن کافی عرصہ بعد یعنی 2004 ء میں شہریار خان کی ذاتی کوشش اور دعوت پر وہ پاکستان تشریف لائی تھیں۔ شہریارخان نے اپنی کتاب ‘ کرکٹ کالڈرن’ میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے۔ شاید اس بار ان سے کسی ‘من چاہی دستاویز’ پر دستخظ کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا۔