اسلامی معاشرے کے اس خلق ’’ایثار‘‘ کا ایک اور واقعہ سناتا ہوں۔ یہ آج سے تقریباً تیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔۔ ایک صاحب کابل گئے اور وہاں سے واپس آتے وقت وہ انار اور دوسرے پھلوں کی ایک ٹوکری بھر کر لائے۔ اللہ کی شان کہ جب وہ یہاں پاکستان پہنچے تو انہوں نے وہ ٹوکری اپنی والدہ کے حوالے کر دی اور کہا کہ میں آپ کے لیے وہاں سے تحفہ لایا ہوں۔
ان کے کچھ رشتہ دار انہیں دہلی سے ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے اور وہ اسی دن واپس جا رہے تھے۔ والدہ نے بیٹے سے کہا: بیٹا! رشتہ دار مستورات واپس جا رہی ہیں۔ کیوں نہ یہ پھلوں کی ٹوکری ان کو دے دیں؟ چنانچہ انہوں نے وہ پھلوں کی ٹوکری ان کو دے دی۔ اب جب ان لوگوں نے پھلوں کی وہ ٹوکری اپنی والدہ کو دی۔ اس وقت اس کی والدہ کے پاس گھر کی خادمہ (ماسی) جو بیوہ تھی، اپنے گھر کے دکھڑے بیان کر رہی تھی، وہ کہہ رہی تھی کہ میرے بچے یتیم ہیں، خاوند نہیں ہے، بڑی پریشانی کا عالم ہے۔ جب اس کی والدہ نے اس عورت کے دکھڑے سنے تو اس نے وہ ٹوکری اسی طرح اٹھا کر اس خادمہ کے حوالے کر دی اور اس طرح اس کے یتیم بچوں نے ان پھلوں کو کھایا۔۔۔ اللہ اکبر!۔۔۔ کابل سے پھل چلتے ہیں اور لاہور آتے ہیں اور لاہور سے دہلی جاتے ہیں اور دہلی جا کر ایک بیوہ عورت کے ہاتھ میں پہنچتے ہیں، پھر وہاں سے ان یتیموں کو وہ پھل کھانے کو مل جاتے ہیں، اسلام ہمیں ایثار کی یہ تعلیم دیتا ہے۔ اب آپ ذرا کھلے دل و دماغ سے سوچیے کہ ان دونوں طریقہ ہائے زندگی کے درمیان موازنہ کرکے دیکھئے کہ انسانیت کی صحیح تصویر کس طریقہ زندگی میں نظر آتی ہے۔ یقیناً وہ تصویر دین اسلام میں ہی نظر آتی ہے۔