حضرت موسیٰؑ کو ایک شخص نے کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی محبت دلوا دیں چنانچہ بذریعہ موسیٰؑ ان کو اللہ تعالیٰ کی محبت مل گئی چند دنوں کے بعد اس کی بکری مر گئی پھر ایک دن اس کے بیل مر گئے اس نے موسیٰؑ کو کہا کہ میں کمزور آدمی ہوں، اللہ پاک سے کہہ دیں کہ میں آپ سے دوستی نہیں کر سکتا۔ موسیٰ ؑ نے عرض کر دیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس کو ہم ایک دفعہ اپنا دوست بنا لیں پھرہم اس کو چھوڑتے نہیں،
اس سے اندازہ فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے ساتھ بے انتہا محبت ہے اور ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی ہر دم اپنے خالق اور مالک سے محبت کا ثبوت ظاہر کریں۔ محبت ہو تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے بھی محبت ہو تو اس میں بھی خود غرضی یا نفسانی خواہش مطلوب نہ ہو بلکہ اس میں بھی حق تعالیٰ جل شانہ کی محبت کا ثبوت و ظہور ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت بنیادی چیز ہے تمام نیکیوں کے کرنے اور سب گناہوں سے بچنے میں اسی محبت کو دخل ہے جس کو جتنی زیادہ حق تعالیٰ سے محبت ہو گی اس کے لیے سلوک اور دین کے راستے اورآخرت کی تمام منزلیں آسان ہوتی چلی جائیں گی یہی وہ محبت ہے جو دار فانی (دنیا) اور دارِ باقی (آخرت) میں عافیت اور سکون کا باعث ہے۔ کسی کی نماز محبت سے پڑھی جاتی ہے اور کسی کی بوجھ سمجھ کر اورکوئی گناہ سے بڑے شوق سے بچتا ہے اور کوئی بڑی مصیبت سے، محبت والے کے اعمال و افعال و حرکات سب محبوب کی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں۔ آئیے ہم چند اللہ والوں کے واقعات یاد کر لیں تاکہ ہمیں بھی دلی محبت کا شوق پیدا ہو۔