جمعرات‬‮ ، 05 دسمبر‬‮ 2024 

’’تین اصول‘‘

datetime 22  اکتوبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

’’کمپارڈ‘‘ جنوبی سویڈن کے اسی گاؤں میں 1926ء کوپیدا ہوا۔ اس نے روایتی انداز میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ وہ ایک غریب طالب علم تھا۔ ابھرتے شعور کے ساتھ، بڑھتی ضروریات کے پیش نظر اس نے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ اس نے تعلیم کے ساتھ ساتھ اردگرد کے علاقوں میں سائیکل پر ’’ماچس فروخت کرنے سے‘‘ کاروبار کاآغاز کیا۔ کچھ عرصے بعداسے پتہ چلا وہ ’’اسٹاک ہوم ‘‘ سے

ماچسوں کی ایک کھیپ سستے داموں خرید کر اسے پرچون میں کم ریٹ پر بیچنے کے باوجود بھی اچھا نفع کما سکتا ہے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ نتیجتاً اس کا کا روبا ر مچھلیو ں، کرسمس کے سجا وٹی درختوں، بیجو ں اور بعد میں با ل پو ائنٹ اور پنسلو ں کی فروخت تک بڑ ھ گیا۔آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کرنے کی اجازت دیجیے کہ مذکورہ تین اصول بھی برحق ہیں اور کمپارڈ کا ان سے حیرت انگیز استفادہ بھی سچ۔ مگر سوال یہ ہے! کیا یہ سنہری ہدایات دین اسلام نے 14صدیاں قبل ہر مسلمان تاجر کو نہیں دی تھیں؟ جی ہاں! بات اپنانے کی ہے۔ کھیل سارا عمل میں لانے کا ہے۔ ان کی تاثیر ہے پتھر کی لکیر۔ جو چاہے فائدہ اٹھائے۔کمپارڈ کی کامیابیوں کا یہ سفر دھیرے دھیرے جاری تھا کہ اس نے اپنے ان چھوٹے چھوٹے تجربات پر ایک بہت ہی بلند عمارت کھڑی کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کامیابیوں کے میدان میں رینگنے کے بجائے جست لگانے کی ٹھانی۔ اس نے اپنے اب تک کے کچے تجربات سے تین پکے اصول اخذ کیے۔ یہ اصول اسے پرچون فروش سے ’’آئی کیا‘‘ کمپنی تک لے گئے۔ وہ تین اصول کیا تھے؟ کمپارڈ نے محبت، سادگی اور جہد مسلسل کو اپنا شعار بنا لیا۔اس نے اپنے ماتحتوں کو محبت دینے کا فیصلہ کیا۔ سادگی! آج ارب پتی بن کر بھی اس کے مزاج کا حصہ ہے۔ اس کی جہد مسلسل انقطاع کے نام سے کبھی آشنا نہ ہو سکی۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کرنے کی اجازت

دیجیے کہ مذکورہ تین اصول بھی برحق ہیں اور کمپارڈ کا ان سے حیرت انگیز استفادہ بھی سچ۔ مگر سوال یہ ہے! کیا یہ سنہری ہدایات دین اسلام نے 14صدیاں قبل ہر مسلمان تاجر کو نہیں دی تھیں؟ جی ہاں! بات اپنانے کی ہے۔ کھیل سارا عمل میں لانے کا ہے۔ ان کی تاثیر ہے پتھر کی لکیر۔ جو چاہے فائدہ اٹھائے۔بہرحال! کمپا رڈ جب 17بر س کا ہوا تواس کے والد نے تعلیم میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر اسے نقد انعا م سے نوازا۔

اس نے یہ رقم ان بنیادوں میں لگادی جس پر مستقبل میں دنیا کی ایک مشہور کمپنی (IKEA) ’’آئی کے ای اے‘‘ کی عمارت کھڑی ہونی تھی۔ ’’آئی کیا ‘‘ کا نام کمپنی کے مالک ’’اِنگو ار کمپارڈ(Ingvar kanpard) اس کے گاؤں (Agunnaryd)اور اس فارم (Elmtary) جہا ں اس نے پر ورش پائی تھی کے نام کے ابتدائی حرفو ںکو جو ڑ کر رکھا گیا۔ کمپا رڈ نے ماچسوں، مچھلیوںاور پنسلوں کے ساتھ ساتھ اب

بٹووں، گھڑیوں، جیو لری اور زنانہ موزو ں کی تجارت کے ذریعے اپنے کاروبارکومزید وسعت دیناشروع کی۔ جب اس نے اپنی صلاحیت کواس حد تک بڑ ھالیا کہ وہ انفرادی طو ر پر اپنے گا ہکو ں کی ما نگ پورا کر سکتا تھا تو عارضی طور پر اس نے ڈاک کے ذریعے آرڈر منگوانے کا طر یق کار اختیار کیا اور ساما ن کی فراہمی کے لیے ایک مقامی دودھ والی گا ڑی کا انتظام کرلیا۔ اِس کے بعد پھر اُس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔

اس کا کاروبار اس قدر پھلا پھولا کہ ہر نیا دن اس کے لیے تر قی کی نو ید لے کر آتا۔ یہا ں تک کہ 2004ء کے شروع میں سو یڈن کے ایک تجارتی رسالہ (Veckans affarer) نے ایک رپو رٹ شائع کی۔جس میں بتا یا گیا کہ جنوبی سو یڈن کا ایک دیہاتی لڑکا جس نے اوائلِ جوانی میں’’سائیکل پر ماچس فر وخت کرنے سے‘‘ اپنے کا روبار کا آغاز کیا تھا، آج اس نے دنیا کے امیر ترین آدمی ’’بل گیٹس‘‘ کو بھی پیچھے چھو ڑدیا

ہے۔کمپارڈکی کمپنی ’’آئی کیا‘‘ کا شمار دنیا کی’’مشہو ر کمپنیو ں‘‘ میں ہوتا ہے۔ اگر چہ (آئی کے ای اے ) کے غیر روایتی ملکیتی ڈھا نچے پر بحث ہو سکتی ہے، لیکن اس میں کو ئی شک نہیں کہ یہ کمپنی اب بھی دنیا کی سب سے بڑی نجی ملکیت والی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ جو 200سے زاید اسٹورو ں، 75ہزار سے زاید ملا زمین اور 12ملین سالانہ آمدنی کے ساتھ دنیا کے31 ممالک میںکاروبا ر کر رہی ہے۔کمپنی کا مالک آج بھی

’’کم خر چ با لا نشیں‘‘ کے اصول پر عمل پیر ا ہے۔ کام پرجانے کے لیے اب بھی وہ ’’سب وے‘‘ کی سیٹ لیتا ہے اوراگر ڈرائیونگ کر نی ہو توپھر اپنی بو ڑھی ’’وا لو‘‘ کا ر کو ہی زحمت دیتا ہے۔ ہو ٹل میں قیا م کے دوران اگر اسے مہنگے مشروب کی طلب ہو تو بجا ئے ہو ٹل سے مہنگے دامو ں خریدنے کے وہ قریبی کسی موزوں دکان سے منگوا لیتا ہے ۔ کمپنی کے ملازمو ں کو وہ ترغیب دیتا ہے کہ ہمیشہ صفحے کے دونوں جا نب

لکھیں۔ ’’فوربس میگزین‘‘ نے اس کے اثا ثہ جات کا اندازہ 33بلین امریکی ڈا لر لگایا ہے جو اسے دنیا کا چو تھا امیر ترین آدمی بنا تے ہیں۔

موضوعات:



کالم



26نومبر کی رات کیا ہوا؟


جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…