بوڑھے آدمی کی لاش آگ کے سامنے پڑی ہوئی تھی۔ وہ بلا شک و شبہ دم توڑ چکا تھا کمرہ بھی اس کے جسم کی طرح سرد تھا۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے سراغرسانوں کی تفتیش کے مطابق بوڑھے کوغیر متشددانہ طور پر لوہے کی سلاخوں سے ہلاک کیا گیا تھا۔ یہ ہتھیار کس نے استعمال کیا تھا؟ اس کا جواب ان کے پاس نہیں تھا۔ کمرے کی شکستہ حالت سے ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ کسی دولت مند آدمی کی ملکیت نہیں ہے۔ اس لئے ڈاکہ زنی کا
بھی کوئی امکان نہیں تھا۔ مقتول جھگڑالو قسم کا انسان بھی نہیں تھا علاوہ ازیں اس کا کوئی جانی دشمن بھی نہیں تھا۔سکاٹ لینڈ یارڈ کے سراغ رساں واپس جانے کے لئے اپنے کیمرے اور فیتے باندھ رہے تھےکہ دروازے پر ایک خوش پوش جوان نمودار ہوا۔ سراغ رساں اسے اس کمرے میں لے گئے جہاں بوڑھے کی لاش موجود تھی۔ اجنبی نے ادھر ادھر دیکھے کے بعد خواہش ظاہر کی کہ اسے خون آلود ہاتوں کے وہ پرنٹ دکھائے جائیں جو دیوار پر نقش ہو چکے تھے۔ چنانچہ سراغ رسانوں نے اسے وہ پرنٹ دکھائے۔ اجنبی نے ایک پرنٹ کو نفرت آمیز نگاہوں سے دیکھا اور سراغ رسانوں کی طرف مڑتے ہوئے بولا۔ بوڑھے آدمی کا قاتل فرور مور ہے جس کی پینٹ کی بائیں جیب میں سونے کی چھوٹی سی گھڑی بھی ہے۔ اور وہ مقتول کا کوئی قریبی رشتے دار بھی ہے۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کے سراغ رسانوں نے ان کا وقت ضائع کرنے پر اس خوش پوش بانکے نوجوان کے کان کھینچنے کا ارادہ کیا۔ لیکن چونکہ وہاں لندن کے اخبارات کے کئی نمائندے موجود تھے اس لئے وہ محض مسکرانے کے اور کچھ نہ کہہ سکے۔یہ خوش پوش نوجوان کون تھا؟ جس نے دیوار پر خون آلود ہاتھوں کے پرنٹ دیکھ کر ہی قاتل کے متعلق انکشاف کر دیا تھا۔ یہ کیرو تھا۔ مشہور و معروف پامسٹ۔ اس نے بعد میں اپنا کاروباری کارڈ دکھاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔کیرو کے انکشافات دوسرے روز اخبارات میں شائع ہوئے اور
پھر چوبیس گھنٹوں کے بعد پولیس قاتل کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ قاتل کا نام فرور مور ہی تھا اور وہ بوڑھے آدمی کا بیٹا تھا۔ علاوہ ازیں اس کی پتلون کی جیب سے ایک چھوٹی سی گھڑی بھی برآمد ہوئی جو سونے کی تھی۔کیرو کا اصلی نام کاؤنٹ لوئیس ہامن تھا۔ وہ شاہراہوں پر دھوپ میں بیٹھ کر اپنے گاہکوں کے ہاتھ دیکھا کرتا تھا۔ اس طرح اس نے کافی رقم جمع کر لی تھی۔ وہ ہر ہفتے اچھی خاصی رقم بنک میں بھی جمع
کرواتا تھا۔صورتِ حال کی نزاکت کے پیشِ نظر 1893 میں کیرو نیویارک چلا گیا جہاں اس نے پارک ایونیو میں اپنا دفتر کھول لیا۔ اسے یہاں بھی بڑی کامیابی ہوئی۔ بے شمار لوگ اس کے پاس ہاتھ دکھانے کی غرض سے آیا کرتے تھے۔ جلد ہی اس کی شہرت کی گونج اخبارات میں بھی سنائی دینے لگی۔ اخبار نیویارک ورلڈ کی ایک خاتون نے پوچھا کہ کیا وہ اپنے فن کے متعلق امتحان دینے کو تیار ہے؟ کیرو کے لئے یہ لمحہ بہت نازک
تھا۔ اس نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر اس کا یہ چیلنج قبول کر لیا۔اخبار نیو یارک ورلڈ نے کیرو کے مقابلے کی خبر کو خوب اچھالا۔ امتحان کا دن قریب آ گیا اس دن مرہ امتحان میں کیرو ایک خاموش ترین انسان تھا۔ امتحان میں اسے نیویارک کی 13 مختلف شخصیتوں کے ہاتھوں کے پرنٹ دئیے گئے تاکہ وہ ان کی شناخت کر سکے۔ ان پر بظاہر کوئی نشان نہیں تھا جو شناخت میں ممدو و معاون ثابت ہو سکتا۔ان پرنٹوں کے بارے میں
صرف تین جج صاحبان ہی جانتے تھے۔ اور وہ چپ چاپ منہ لٹکائے ہوئے اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ کب کیرو سے غلطی سر زد ہوتی ہے۔ کیرو ایک ایک پرنٹ کو اٹھاتا اور بغیر ہچکچاہٹ سرسری جائزے سے ہی بتا دیتا کہ وہ پرنٹ کس آدمی کے ہیں۔ کیرو تیرھویں اور آخری پرنٹ پر آ کر رک گیا۔ اس نے پرنٹ کو میز پر رکھا اور ججوں سے مخاطب ہوا“ میں اس پرنٹ والے آدمی کا نام نہیں بتاؤں گا“۔یہ سن کر حاضرین کے
چہرے پر گھبراہٹ کے آثار پیدا ہو گئے کہ وہ ہار رہا ہے۔ کیرو نے اپنا ہاتھ اوپر اٹھا کر حاضرین کو خاموش رہنے کی تلقین کی اور بولا میں اس آدمی کا نام اس لئے نہیں بتا رہا کہ وہ ایک قاتل ہے۔ اگر اس کا نام بتا دیا گیا تو وہ جیل میں ہی سخت روحانی کرب میں مبتلا ہو کر مر جائے گا۔ یہ پرنٹ ڈاکٹر ہنری مئیر کا تھا۔ جسے بیک وقت پاگل اور قاتل قرار دے کر جیل میں بند کر دیا گیا تھا۔ اخبارات نے کیرو کی دل کھول کر تعریف کی۔
اس کے ساتھ ہی ساری دنیا میں اس کی شہرت پھیل گئی۔ کیرو نے یورپ کا بھی کامیاب دورہ کیا۔ 1897 میں اس نے پیشن گوئی کی کہ زارِ روس اپنے آخری دن تنگی اور عسرت میں بسر کرے گا۔ علاوہ ازیں اس سے بیوی اور حکومت دونوں چھن جائیں گے۔ کیرو کی یہ پیشن گوئی 1917میں پوری ہوئی 1906 میں وہ اپنے پیشے سے ریٹائر ہو گیا۔کیرو کو ایک گاہک کی رقم لوٹنے میں بدسلوکی کے جرم میں 13 ماہ قید کی سزا دی
گئی۔ 1936 کی ایک صبح کو ہالی وڈ کی سٹرک کے کنارے اس کی لاش پڑی ہوئی ملی۔ وہ ہسپتال جاتے ہوئے فالج کا شکار ہو گیا تھا۔کیرو کہا کرتا تھا کہ اسے اپنی صلاحیتوں اور پیشن گوئیوں کی صداقت کا کبھی بھی یقین نہیں ہوا۔ آخری عمر میں اس کی یہ صلاحیت جواب دے گئی۔ اس کی حالت ایک ایسے جادوگر کی مانند ہو گئی تھی جو منتر بھول چکا ہو۔