آپریشن جبرالٹر کے نتیجے میں پاک بھارت کشیدگی عروج پر پہنچ چکی تھی۔ بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاشتری نے ببانگ دہل جنگ کی دھمکی دیدی۔ شاشتری کا کہنا تھا کہ ’’اب ہم اپنے من پسند وقت پر اپنی مرضی کا محاذ کھولیں گے‘‘۔ستمبر 1965میں موسم برسات جو کے ٹینکوں کی نقل و حرکت کیلئے ایک رکاوٹ سمجھا جاتا ہے جبکہ فوجی پیش قدمی بھی انتہائی سست روی
کا شکار ہو جاتی ہے کہ ختم ہوتے ہی بھارت نے لاہور، سیالکوٹ اور قصور کی جانب سے تین اطراف سے انتہائی تیز رفتاری سے حملہ کر کے پاکستان کو سرپرائز کرنے کی کوشش کی۔ بھارتی منصوبے کے مطابق حملہ اس قدر اچانک اور فوری ہو کہ پاکستانی فوج سنبھل نہ سکے اور یوں پاکستانی تاریخ کے اس معرکہ کا آغاز ہوگیا جس میں مادر وطن کے قابل ذکر سپوتوں نے وہ کارنامے سر انجام دئیے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔بھارتی افواج لاہور کے نواح تک پہنچ گئی اور ہڈیارہ کے گاؤں پر قبضہ کر لیا ۔پاک فوج نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے برکی کے محاذ پر بھارتی فوجوں کے اجتماع کو نو گھنٹے تک کامیابی سے روکا جس کے نتیجے میں پاک فوج کو اپنی پوزیشن بہتر کرنے کا موقع ملا اور بھارتی پلان ڈگمگا کر رہ گیا بی آر بی نہر لاہور اور بھارتی فوجوں کے درمیان ایک مضبوط دیوار بن کر ابھری ۔یہ معرکہ میجر راجہ عزیز بھٹی نے انجام دیا اسی محاذ پر انہوں نے جام شہادت نوش کیا اور اس جنگ میں نشان حیدر حاصل کرنے والے واحدپاکستانی فوجی تھے۔ اگلے دو روز تک پاکستانی فوجوں نے بھارتی علاقے میں 8 کلومیٹر تک پیش قدمی کی اور کھیم کرن نامی بھارتی قصبہ پر سبز ہلالی پرچم لہرا دیا ۔ بھارت سیخ پا ہو چکا تھا ۔ سخت مزاحمت اور ہزیمت کے باعث اپنی سبکی محسوس کرتے ہوئے بھارت نے اپنے ٹینک جنگ
میں جھونک دئیے۔سیالکوٹ محاذ پر جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا کی دوسری بڑی ٹینکوں کی لڑائی لڑی گئی۔بھارتی فوج میں’’ فرسٹ انڈین آرمر ڈویژن ‘‘بھی شامل تھا جسے ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا ۔جبکہ بھارتی آرمی چیف جنرل چوہدری کی 16 کیولری جس کو ’’فخر ہند ‘‘بھی کہا جاتا تھا وہ بھی سیالکوٹ کی جانب گامزن تھی ۔یوں اس محاذ پر پاک فوج شدید دباؤ سے دوچار تھی ۔
اس نازک موقع پر پاک فوج کے جوان بم باندھے بھارتی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے جس سے بھارتی فوج کو شدید نقصان اٹھانا پڑا اس کے ساتھ ہی پاک فضائیہ حرکت میں آئی اور یوں بھارتی پیش قدمی سیالکوٹ میں چونڈہ کے محاذ پر رک گئی ۔پاک فضائیہ نے بھارتی بری فوج کا سیالکوٹ حملہ منصوبہ بھی خاک میں ملادیا ۔تقریباٰ پچاس بھارتی ٹینک تباہ ہوگئے ۔چونڈہ کے مقام پر آج بھی
بھارتی آرمی چیف کی ایک جیپ جو وہ چھوڑ کر بھاگ گیا تھا یادگار کے طور پر نصب ہے۔پاک فضائیہ کے قابل فخر ہوا بازوں سرفراز رفیقی شہید ،یونس حسن شہید نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر بھارتی فوجی ہوائی اڈوں کو شدید نقصان پہنچایا ۔ان میں آدم پور ،ہلواڑہ،جموں ،پٹھانکوٹ،اور جام نگر کی ائیر بیس کو شدید نقصان پہنچا ۔یہی وجہ ہے جنگ کے پہلے ہفتے کے بعد بھارتی ائر فورس
کی پاکستان میں کوئی قابل ذکر کارکردگی دیکھنے میں نہیں آئی ۔اس موقع پر سرگودھا کی فضاؤں میں’’ ایم ایم عالم ‘‘نے اپنے سیبر طیارے سے چار بھارتی ہنٹر طیارے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں مار گرائے جس سے بھارتی فضائیہ کا مورال گر گیا ۔جہاں ایک طرف بری اور فضائی فوج اپنا کردار نبھا رہی تھیں وہاں بحریہ نے بھی اپنے جوہر دکھائے اور بھارتی ریاست گجرات کے
قریب بھارتی بحری اڈے ’’دوارکا ‘‘میں موجود ریڈار سسٹم کو پیش قدمی کرتے ہوئے تباہ کردیا ۔اس کے علاوہ پاک نیوی کی آبدوز ’’غازی‘‘نے بھارتی جنگی بحری جہاز ’’ککری‘‘کو تباہ کردیا ۔یہ سب بھارتی سمندری حدود میں ہوا ۔بھارتی بحریہ نے اس جنگ میں مزید کوئی پیش قدمی نہیں کی یوں کراچی بھارتی بحری ناکہ بندی کے خطرے سے محفوظ رہا ۔پاک فوج نے سندھ کے ریگزاروں
میں بھی پیش قدمی جاری رکھی اور راجھستان کے علاقے ’’مناباؤ‘‘ میں’’گدارو ‘‘کے مقام پر بھارتی فوجی قلعے پر بھی قبضہ کر لیا ۔مجموعی طور پر اس جنگ میں پاک فوج نے 1600 مربع میل تک پھیلے بھارتی علاقے کو اپنے قبضے میں لیا ۔جبکہ 446 مربع کلومیٹر کا علاقہ بھارت کے قبضے میں رہا۔یہ جنگ 23 ستمبر کو ختم ہوگئی ۔اس کے نتیجے میں معاہدہ تاشقند جنوری 1966 میں ہوا ۔
ایوب خان کی خواہش تھی کہ کشمیر پر کوئی ٹھوس سفارتی پیش رفت کر لی جائے مگر معاملہ بات چیت جاری رکھنے پر ختم ہوگیا یہی معاہدہ ایوب کے سیاسی زوال کا سبب بنا۔لال بہادر شاشتری پر دوران مذاکرات بھارتی عوام کی جانب سے شدید تنقید کی گئی کہ وہ بھارت کا مقدمہ جاندار طریقے سے لڑ نہ سکے اس صدمے میں مبتلا ہوکر لال بہادر شاشتری کی تاشقند میں ہی موت ہوگئی۔