والدین کا تعلق اولاد سے اتنا خصوصی ہے کہ اس کے برابر دنیا میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی وجہ سے شریعت اسلامیہ نے والدین کی اطاعت اور ان کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی بے حد تاکید کی ہے۔ باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:’’اور حکم کر چکا تیرا رب کہ نہ عبادت کر اس کے سوائے اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو،
اگر پہنچ جائیں بڑھاپے کو تیرے سامنے ایک ان میں سے یا دونوں تو نہ کر اُف ان کو اور نہ جھڑک اُن کو اور کر بات اُن سے ادب کی اور جھکا دے ان کے آگے کندھے عاجزی کے نیاز مندی سے اور کہہ اے رب ان پر رحم کر، جیسا پالا انہوں نے مجھ کو چھوٹا سا۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل) مختصر الفاظ میں ماں باپ کے حقوق واجبہ کو بیان کر دیا گیا ہے۔ جن کی تفصیل بہت کچھ کی جا سکتی ہے۔ جناب آقا و مولیٰ محمد رسول اللہؐ نے بھی اپنے ارشادات کے ذریعے اسی آیت کی تفصیل فرمائی ہے۔ جن کا احاطہ و استیعاب طوالت سے خالی نہیں۔ ان میں سے تبرکاً چند احادیث کا خلاصہ تحریر کیا جاتا ہے:1۔ احبا الاعمال الی اللہ۔ (بخاری و مسلم عن ابن مسعود)’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک (ماں باپ کی خدمت) بہت پسندیدہ عمل ہے۔‘‘2۔ جہاد کی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ ماں باپ کی خدمت کو جہاد قرار دیا۔ (عبداللہ ابن عمرؓ، بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی)3۔ ہجرت کی بھی اجازت نہیں ملی۔ (عن عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ابوداؤد)4۔ ماں باپ ہی کو جنت فرمایا، یعنی ذریعہ۔ (ابن ماجہ)5۔ اپنی محبوبہ بیوی کو طلاق دے دی، جبکہ باپ کی ناراضگی معلوم ہوئی اور طلاق کا حکم ملا۔ (عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سنن اربعہ)6۔ عمر کی زیادتی اور رزق میں اضافہ۔ ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے سے ہوتا ہے۔ (انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ، مسند احمد)7۔ ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو،
تمہاری اولاد بھی تمہارے ساتھ بھلائی کرے گی۔ (ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حاکم)8۔ والدین کو بڑھاپے میں پا کر ان کی خدمت نہ کی نہ ان کی دعائیں لیں تو ایسا شخص رحمتِ خداوندی سے دور اور دوزخ کا مستحق ہوتا ہے۔ (ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جابرؓ، کعب ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حاکم ابن حبان، مسلم)9۔ مصیبت میں پھنسا ہوا آدمی ماں باپ کے ساتھ کی ہوئی نیکی کے توسل سے دعا مانگتا ہے تو مقبول ہوتی ہے اور مصیبت دور ہو جاتی ہے۔
(عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن حبان، بخاری، مسلم)10۔ حسن سلوک کی تاکید ماں کے ساتھ پہلے ہے پھر باپ کے ساتھ۔ (ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، بخاری و مسلم)11۔ ماں اگر کافرہ یا مشرکہ ہے تب بھی خدمت و احسان کی حقدار ہے۔ (اسماء بنت ابی بکرؓ بخاری، مسلم)12۔ والدین کی رضا مندی یا ناراضی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی و ناراضی ہے۔ (عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن حبان، طبرانی، ترمذی، حاکم) 13۔ گناہ عظیم کرنے کے بعدماں یا اس کی بہن کے ساتھ بھلائی کرنے کے بعد توبہ قبول ہوتی ہے۔ (عبداللہ ابن عمرؓ۔ ترمذی، ابن حبان، حاکم)
14۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے لیے مغفرت کی دعا، ان کے کیے ہوئے وعدے پورے کرنا اور ان کے دوستوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا گویا انہی کے ساتھ سلوک کرنا ہے۔ (مالک ابن ربیعہؓ، ابو داؤد، ابن ماجہ، ابن حبان) 15۔ والدین کی نافرمانی حرام و گناہ کبیرہ ہے اور قتل، شرک اوراولاد کو زندہ درگور کرنا، سود کھانا، جادو سیکھنے و شراب ہمیشہ پیتے رہنے وغیرہ سخت گناہوں کے برابر ہے۔
ایسوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔ تمام احادیث کو اگر ان کے پورے مضامین کے ساتھ نقل کرتا تو اس طرح کے کئی صفحات درکار ہوتے ہیں، اس لیے صرف انہی اشاروں کو اخذ کیا گیا جن کا تعلق ماں باپ کے ساتھ تھا۔یہ ارشادات ہی نیک دل اور انصاف پسند اولاد کے لیے کافی ہیں۔ ماں باپ کی خدمت اور ان کی اطاعت اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا عجیب و غریب چیز ہے۔ خاتمہ بخیر ہونے کے لیے انسان کے نامہ اعمال کو تمام نیکیوں کے ساتھ ان سے بھی مالا مال ہونا ضروری ہے۔