ہفتہ‬‮ ، 02 اگست‬‮ 2025 

مگر یہ حافظ نہیں ہیں

datetime 25  اپریل‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ دارالعلوم دیوبند کے بانی تھے، وہ ایک مرتبہ حج کے سفر پر تشریف لے گئے، اس زمانے میں بحری جہازوں کے ذریعے سفر ہوتا تھا اور راستے میں کئی کئی مہینے لگ جاتے تھے، چنانچہ لوگ رمضان المبارک سے پہلے ہی حج کا سفر شروع کر دیتے تھے تاکہ وقت سے پہلے مکہ مکرمہ پہنچ جائیں،

انہوں نے بھی ایسا ہی کیا۔جب درمیان میں رمضان شریف کا مہینہ آیا تو ان کو پتہ چلا کہ میرے گروپ میں کوئی بھی قرآن مجید کاحافظ نہیں ہے، بڑے بڑے عالم تو تھے، وہ نماز بھی پڑھاسکتے تھے، مگر ان میں حافظ کوئی نہیں تھا جو انہیں تراویح میں پوراقرآن مجید سناتا، حضرت مولانا نے فرمایا کہ مجھے تو اچھا نہیں لگتا کہ علماء کی اتنی بڑی جماعت ہو اور وہ آخری سورتوں سے تراویح پڑھیں، لہٰذا وہ روزانہ دن کے وقت ایک پارہ یاد کر لیتے اور رات کو تراویح کے اندر سنا دیتے، اُدھر رمضان المبارک مکمل ہوا اور ادھر ان کے قرآن مجید کا حفظ مکمل ہو گیا، یہ ایک مہینے میں قرآن مجید حفظ کرنے کی مثال ہے۔ہشام بن محمد کلبیؒ ایک عالم تھے، ایک مرتبہ وہ کچھ علماء کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ان علماء نے آپس میں گفتگو کی کہ فلاں عالم ہے، فلاں حافظ ہے اور فلاں عالم بھی ہے حافظ بھی ہے، جب ان کا نام آیا تو انہوں نے کہا کہ یہ عالم تو بہت بڑے ہیں، مگر یہ حافظ نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بس اسی وقت سے میرے دل میں ایک بات آئی، اس کے بعد میں نے قرآن مجید منگوایا اور اس کو یاد کرنا شروع کر دیا، فرماتے ہیں کہ تین دن مکمل ہونے تک میں نے پورے قرآن مجید کو یاد کر لیا، لوگ ان کا ٹیسٹ لیا کرتے تھے اور وہ اس کا ٹیسٹ دے دیا کرتے تھے۔

قرآن کے بھولنے پر ایک خاتون کا تعجب
حضرت مولانا محمد انعام الحق قاسمی بتاتے ہیں کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کو قرآن مجید بہت اچھا یاد ہوتا ہے، تین چار سال پہلے کی بات ہے، ایک خاتون نے ہمارے ساتھ حج کیا، اس کو قرآن پاک ایسے یاد تھا جیسے لوگوں کو سورۂ فاتحہ یاد ہوتی ہے، جہاں سے قرآن مجید پڑھ دیتے، وہ وہیں سے آگے پڑھنا شروع کردیتی،

اس کو تھوڑی سی دیر کے لیے بھی الجھن نہیں ہوتی تھی، وہ اس بات پر حیران ہوتی تھی کہ لوگ قرآن پاک کو کیسے بھول جاتے ہیں یا ان کو اشکال لگ جاتا ہے! اس کو قرآن پاک اس طرح یاد تھا۔
حفظِ قرآن میں اتنی پختگی!
حضرت مولانا محمد انعام الحق قاسمی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم نے اپنے حضرت غلام حبیب نقشبندیؒ کے ساتھ رمضان المبارک کے کچھ دن مری میں گزارے،

ایک مرتبہ شبینہ تھا، ہم بھی وہاں گئے، امام صاحب نے کہا: حضرت! یہاں پر ملک کے دور و نزدیک سے مہمان آ کر رمضان شریف گزارتے ہیں، وہاں پتہ چلا کہ اس مصلے پر چھتیس سال سے تراویح پڑھائی جا رہی تھی اور ایک مرتبہ بھی کسی قاری کو کوئی متشابہ نہ لگا اورکسی کو لقمہ دینے کی ضرورت نہیں پڑی تھی، چھتیس سال تک قرآن سنانے والے جتنے بھی قراء آئے، ان کو اتنا قرآن پاک یاد تھا کہ کسی ایک کی بھی غلطی نہ نکلی، تو ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ یوں قرآن مجید یاد کروا دیتے ہیں جیسے اسکرین پر بیٹھے وہ سب کچھ دیکھ رہے ہوں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ماں کی محبت کے 4800 سال


آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…

وائے می ناٹ

میرا پہلا تاثر حیرت تھی بلکہ رکیے میں صدمے میں…