حضرت مولانا قاسم انانوتوی رحمتہ اللہ علیہ تو علم کے آفتاب و ماہتاب تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو بے پناہ عشق رسول عطا فرمایا تھا‘ ایک دفعہ انگریزوں نے ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کر دیا۔ حضرت تین دن گھر میں رہے اور تین دن بعد باہر نکل آئے کہ حضورﷺ غار میں تین دن تک چھپے رہے تھے۔لہٰذا تین دن سے زیادہ میں اندر رہنا پسند نہیں کرتا ایسا نہ ہو کہ قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ سے خلاف سنت کام ہو جائے۔
حضور اکرمﷺ کی حدیث ہے کہ تم اپنی بیواؤں کا نکاح کر دیا کرو‘ قرآن پاک میں بھی ہے۔ حضرت قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ کی ایک ہمشیرہ نوے سال کی عمر میں بیوہ ہو گئیں۔ آپ کو پتہ چلا آپ ان کے پاس تشریف لے گئے۔ کچھ دن گزر گئے تو دوبارہ اپنی بہن کے پاس گئے۔ بہن! میں آپ کے پاس ایک بات کرنے آیا ہوں‘ بہن نے کہا کہ بتاؤ بھائی! بھائی کیا بات ہے؟ حضرت فرمانے لگے کہ میرے آقا حضرت محمدﷺ کا فرمان ہے کہ تم بیواؤں کا نکاح کر دیا کرو‘ آپ میری اس بات کو مان لیجئے اور نکاح کر لیجئے۔ میں جانتا ہوں کہ اس عمر میں ازدواجی زندگی کی ضرورت نہیں مگر قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ کو سنت کی توفیق ہو جائے گی۔ بہن رونے لگ گئیں۔ آپؒ نے اپنی پگڑی کو اتارا بہن کے قدموں پر رکھ دیا اور کہا کہ تیری وجہ سے مجھے حضور اکرمﷺ کی ایک سنت پر عمل کی توفیق نصیب ہو سکتی ہے۔ چنانچہ 90 سال کی عمر میں اپنی بہن کا ایک اور نکاح کر دیا۔ کیسا عشق تھا۔
حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ جب حج پر گئے تو آپ نے راستہ میں حضور اکرمﷺ کی محبت میں کچھ اشعار لکھے۔
اے اللہ کے نبیﷺ! نجات کی امیدیں تو بہت ہیں مگر سب سے بڑی امید یہ ہے کہ کتوں میں میرا شمار ہو جائے اگر جیوں تو مدینہ کے کتوں کے ساتھ پھرتا رہوں اور اگر مر جاؤں تو مدینہ کے کیڑے مکوڑے مجھے کھا جائیں۔ رسول اللہﷺ کی ایسی شدید محبت تھی دل میں ایک آدمی آپ کی خدمت میں آیا اس نے سبز رنگ کا جوتا پیش کردیا۔ حضرت نے وہ جوتا لے لیا مگر اس کو گھر میں رکھ دیا۔ کسی نے بعد میں پوچھا حضرت فلاں نے بہت اچھا جوتا دیا تھا‘ علاقہ میں اکثر لوگ پہنتے ہیں خوبصورت بھی بنا ہوا تھا۔ فرمایا میں نے جوتا لے لیا تھا کہ اس کی دل جوئی ہو جائے مگر پہنا اس لئے نہیں کہ دل میں سوچا کہ میرے آقاﷺ کے روضہ اقدس کا رنگ سبزہے اب میں اپنے پاؤں میں اس رنگ کاجوتا کیسے پہنوں۔ آپؒ حرم تشریف لے گئے آپ بہت نازک بدن تھے۔ ایک آدمی نے دیکھا کہ آپؒ ننگے پاؤں مدینہ کی گلیوں میں چلے جا رہے ہیں اور پاؤں کے اندر سے خون رستا چلا جا رہا ہے۔ کسی نے پوچھا حضرت جوتے پہن لیتے فرمایا ہاں پہن تو لیتا لیکن جب میں نے سوچا کہ اس دیار میں میرے آقاﷺ چلا کرتے تھے تو میرے دل نے گوارہ نہ کیا کہ قاسم اس کے اوپر جوتوں کے ساتھ چلتا پھرے۔
حضرت نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ اور اتباع سنت
نبی علیہ السلام کی اس محبت کی وجہ سے ایک ایک سنت پر ان کا عمل تھا‘ ایک مرتبہ حضرت نانوتوی کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیئے گئے۔ جب پتہ چلا تو آپ روپوش ہو گئے