حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی نے بتایا کہ انہیں ایک مرتبہ کالج کے پرنسپل کی طرف سے خط ملا کہ فلاں تاریخ کو ہم نے ایک فنکشن کرنا ہے اور آپ کو اس میں رول آف آنر پیش کرنا ہے اس رول آف آنر کو پیش کرنے کے لئے ہم نے ملک کے ایک نامور سائنسدان عبدالسلام خورشید کو بلایا ہے جو اگرچہ غیر مسلم ہے لیکن پاکستانی ہے اس کو کینیڈا سے بلوایا گیا میں اس وقت یونیورسٹی سے چھٹی لے کر کالج پہنچ‘ بہت بڑا فنکشن تھا۔
پرنسپل نے کہا کہ اس بچے نے میرے کالج کا بہت اچھا ریکارڈ بنایا ہے میں اس کیلئے فنکشن بھی شایان شان کروں گا چنانچہ اس نے عبدالسلام خورشید (نوبل پرائز ونر) کو کالج میں بلایا وہ بھی اسی کالج سے پڑھے جس سے میں نے پڑھا‘ خیر اس عبدالسلام خورشید نے مجھے روف آف آنر پیش کیا اس کے بعد چائے کی پارٹی میں اکٹھے ہوئے‘ آپس میں بات چیت ہوئی‘ ہمارے ایک پروفیسر نے عبدالسلام خورشید سے پوچھا کہ آپ نوبل پرائز ونر کیسے بنے؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں بہت محنتی ہوں اس پروفیسر نے کہا کہ سائنس سٹوڈنٹس تو سارے ہی محنتی ہوتے ہیں‘ سارے ہی پڑھاکو ہوتے ہیں‘ سارے ہی کتابی کیڑے ہوتے ہیں اس نے کہا نہیں میں زیادہ محنتی ہوں اس پروفیسر نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب وہ کونسی محنت ہے جو دوسرے لڑکے نہیں کرتے۔ سب سائنس پڑھنے والے لڑکے بڑے ذہین ہوتے ہیں بڑی محنت کرتے ہیں لیکن نوبل پرائز ونر نہیں بنتے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ نہیں میں بڑا محنتی ہوں پھر کہا میں ذہین اتنا نہیں ہوں محنتی زیادہ ہوں۔ پروفیسر نے کہا کہ نہیں نہیں آپ ذہین زیادہ ہوں گے‘ اس نے کہا کہ میں کہہ رہا ہوں میں محنتی زیادہ ہوں اس نے بڑی عجیب مثال دی۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے کہا کہ میں نے کیمسٹری کی ایک کتاب پڑھی وہ مجھے سمجھ نہیں آئی میں نے پھر پڑھی سمجھ نہیںآئی میں نے تیسری دفعہ پڑھی مجھے سمجھ میں نہیں آئی حتیٰ کہ میں نے اس کتاب کو تریسٹھ مرتبہ پڑھا وہ کتاب مجھے تقریباً حفظ ہو گئی اس کی بات سن کر ہم حیران ہوئے کہ ایسا بھی کوئی بندہ ہو سکتا ہے کہ جسے ایک کتاب سمجھ میں نہ آئی تو وہ اس کتاب کو شروع سے لے کر آخر تک تریسٹھ مرتبہ پڑھتاہے واقعی جس کے اندر اتنی محنت کا شوق ہو تو وہ مستحق ہے کہ اسے دنیا میں نوبل پرائز دیا جائے۔