دو جماعتوں نے مل کر ایک جہاز کرایہ پر لیا۔ جہاز کی دو منزلیں تھیں۔ بالائی منزل پر اچھے اورشریف لوگ سورا ہو گئے۔ وہاں ہر قسم کی آسائشیں میسر تھیں پانی کا ذخیرہ تھا۔ شور و شغب بھی نہیں تھا۔ لوگ بھی بڑے پاک نہاد اور پاک باز تھے۔ ہر شخص فکر آخرت میں غرق اور آخرت میں سرگرداں۔ ہر طرف خاموشی ہے۔ سارے کے سارے باجماعت نماز ادا کرنے والے کوئی کسی کی غیبت بھی نہیں کرتا عیب چینی نہیں کرتا۔ کسی کا حق نہیں مارتا۔
حرام نہیں کھاتا۔ کوئی کسی پر ظلم کرتا ہے نہ ایذا رسانی پاکیزہ ماحول اور پر سکون سفر ہے۔ اس کے برخلاف جہاز کے نچلے حصے میں جو لوگ ہیں بات با ت پر لڑتے جھگڑتے ہیں۔ مار کٹائی ان کا شیوہ ہے، ان کی اکثریت اسلامی اخلاق سے عاری ہے۔ حرام و حلال کی کوئی تمیز نہیں۔ بڑے نہ چھوٹوں پر شفقت کرتے ہیں نہ چھوٹے بڑوں کا ادب کسی کو بھی حقوق و فرائض کا خیال سے نہ شفقت کرتے ہیں نہ چھوٹے بڑوں کا ادب کسی کو بھی حقوق و فرائض کا خیال سے نہ شرافت و شائستگی کا۔ اپنی اپنی دھن میں مگن ہیں۔ نتائج سے بے خبر۔ کل کیا ہو گا؟ ہماری بد اعمالیاں کیا گل کھلائیں گی، اس کی کسی کو خبر نہیں۔جو ہو گا دیکھا جائے گا عاقبت کی خبر خدا جانے۔کسی نے بالائی منزل والوں سے کہا کہ ان لوگوں کو منع کروں ان کی بد اعمالیاں رنگ لا کر رہیں گی ان پاکبازوں نے ناک پر رومال رکھ لیے۔ ان کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں۔ ہمیں کیا۔ یہ جو کرتے ہیں اس کا بدلہ پائیں گے ۔ ہمیں تو اپنی فکر کرنی چاہیے۔ بس اپنی اپنی فکر ان گندے لوگوں سے دور ہو کر کہیں ہمارے وجود میں بھی بدی کے جراثیم داخل نہ ہو جائیں۔ البتہ ان لوگوں کو ایک بات کی پریشانی تھی وہ یہ کہ پانی کا ذخیرہ بالائی منزل میں تھا۔ نچلی منزل کے لوگ اوپر پانی لینےآتے کچھ پانی بھرتے اور کچھ گراتے اس طرح جہازکی بالائی منزل کا ستیاناس ہو جاتا۔ ہر آدمی انہیں دیکھ کر نفرت سے منہ پھیر لیتا۔
ایک دن نہ رہا گیا تو اوپر والوں نے نیچے والوں سے کہا کہ تم اپنا ناپاک وجود لے کر ادھر کا رخ نہ کیا کرو۔ کل سے اوپر نہ آنا۔ ہم لوگو ں کو تمہارے آنےسے تکلیف ہوتی ہے۔ تمہارے منحوس چہرے دیکھ کر ہمیں کراہت ہوتی ہے۔اب کیا کیا جائے۔ نچلی منزل کے لوگوں نے مشورہ کیا۔ پانی کے بغیر تو ہم رہ بھی نہیں سکتے۔ چند سر پھرے اٹھے کلہاڑیاں اٹھا لیں اور جہاز کے نچلے حصے کے تختے نکالنے لگے۔ اوپر کے صالحین کو جو پتہ چلا تو ہڑ بڑا کر نیچے اترے۔ دیکھا کہ تنو مند اور تند خو نوجوان کلہاڑیاں لئے جہاز کا تختہ الگ کرنے میں مصروف ہیں۔ خدایا خیر! اب کیا ہو گا۔
اگر ان دیوانوں کو اسی حال میں چھوڑ دیا جائے اور یہ تختہ نکالنے میں کامیاب ہو جائیں تو سمندر کا پانی جہاز میں داخل ہو جائے گا پھر کیا یہی ڈوبیں گے؟ ہم بچ جائیں گے ایسا تو نہیں ہو گا۔ ان کے ساتھ ہم بھی ڈوب کر ہلاک ہو جائیں گے۔ لہٰذا بڑھ کر ان کا ہاتھ پکڑ لینا چاہیے ان کی بقا اور سلامتی کی خاطر نہیں بلکہ اپنی سلامتی کے لئے صحیح بخاری شریف میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے نیک لوگوں اور بروں کا یہی حال ہے۔ کہ سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں لہٰذا اگر صالحین اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے معاملے میں سستی برتیں گے تو دونوں ہلاک ہوں۔ سب کو مل جل کر بدی کو مٹانا اور نیکی کو پروان چڑھانا ہو گا۔ تب کہیں جا کر یہ کشتی ساحل مراد پر پہنچے گی۔