ایک عالمی جریدے میں بتایا گیا ہے کہ کراچی سے انجینئرنگ کی تعلیم کے حصول کیلئے روس جانے والا محمد ظہور کس طرح چند سال میں یوکرین کی اہم ترین شخصیات میں شامل ہونے لگا۔
پاکستانیوں نے اپنی ہمت اور محنت سے کہاں کہاں اپنے جوہرنہیں دکھائے لیکن شاید آپ یہ جان کر حیران ہوں کہ ایک پاکستانی ایک غیر ملک گیا، کامیاب کاروبار کیا اور آج اس ملک کا امیر ترین غیر ملکی، اور طاقتور ترین اور معتبر ترین صحافتی ادارے کا مالک ہے۔جریدے ‘politico’نے اس حیرت انگیز پاکستانی کے متعلق ایک طویل مضمون شائع کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کراچی سے انجینئرنگ کی تعلیم کے حصول کیلئے روس جانے والا محمد ظہور کس طرح چند سال میں یوکرین کی اہم ترین شخصیات میں شامل ہونے لگا۔
محمد ظہور نے جریدے کو بتایا کہ وہ ان 42طلبامیں سے ایک تھے جنہیں 1974میں انجینئرنگ کی تعلیم کیلئے سکالرشپ پر روس بھیجا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ باقی دوستوں کے برعکس انہیں یوکرین کے شہر دونسیک روانہ کردیا گیا جس کی حالت ناگفتہ بہ تھی مگر انہوں نے یہاں سٹیل انجینئرنگ کی تعلیم بہت محنت سے حاصل کی۔ انہوں نے 1980میں اپنا مقالہ دونیسک اسٹیل فیکٹری کے موضوع پر تحریر کیا اور یہی وہ فیکٹری تھی جسے انہوں نے 16سال بعد خرید لیا۔
دراصل وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان آئے مگر 1979میں جنگ افغانستان کے باعث انہیں یہاں کچھ ایسی مشکلات پیش آئیں کہ پھر سے روس لوٹ گئے اور سٹیل کے شعبے میں کاروبار شروع کردیا۔ انہوں نے کئی سٹیل فیکٹریاں خریدیں اور یوکرین کے امیر ترین افراد میں شمار ہونے لگے۔ 2008میں انہوں نے یوکرین کا مشہور جریدہ ‘Kyiv Post’گیارہ لاکھ ڈالر جو کہ تقریباً 11کروڑ پاکستانی روپے بنتے ہیں میں خرید لیا۔
یہ جریدہ آج یوکرین کا معتبر ترین صحافتی پرچہ ہے اور اہل مغرب بھی اس کے معیار کو سراہتے ہیں۔
محمد ظہور نے بتایا کہ وہ ٹیکسوں کے معاملات پر بات کرنے کیلئے یو کرینی ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر سے ملنے گئے۔ ان صاحب کی رشتہ دار خاتون کمیلیا سے ان کی ملاقات ہوئی اور وہ ان کے حسن اور شخصیت کے اسیر ہوگئے۔ محض دو ماہ میں قربت اس قدر بڑھی کہ محمد ظہور کمیلیا کو کراچی لائے اور سرخ ساڑھی پہنا کر ان سے شادی کرلی۔ کمیلیا دلکش صورت کے ساتھ خوبصورت آواز کی مالک بھی ہیں۔
محمد ظہور اور ان کی شریک حیات کمیلیا ظہور اپنے جڑواں بچوں کے ساتھ یوکرین کے ایک پرسکون اور خوبصورت علاقے میں خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں