نئی دہلی (این این آئی)بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس نیاہم جنوبی ریاست کرناٹک کی اسمبلی کے انتخابات میں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی ہے۔ابتدائی انتخابی نتائج کے مطابق اس نے قومی انتخابات سے ایک سال قبل وزیراعظم نریندرمودی کی حکمراں جماعت بھارت جنتا پارٹی (بی جے پی)کوعبرت ناک شکست سے دوچارکیا ہے۔
ان انتخابات میں کامیابی کے بعد کانگریس نے مودی کی بی جے پی کو کرناٹک میں اقتدار سے بے دخل کردیا ہے۔یہ واحد جنوبی ریاست ہے جہاں ہندو قوم پرست گروپ برسراقتدار ہے۔کرناٹک کی آبادی چھے کروڑسے زیادہ ہیاوریہ قریبا برطانیہ کی آبادی کے برابرہے۔اس کا دارالحکومت بنگلوربھارت کا ٹیکنالوجی مرکز ہے۔بھارتی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق کانگریس نے 136 نشستیں حاصل کی ہیں اور اسے 224 نشستوں والی مقننہ میں مجموعی طور پر واضح اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔بی جے پی نے 65 نشستیں حاصل کی ہیں۔18 نشستوں پردوسری جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں اورچارپرآزادامیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔کرناٹک پردیش کانگریس کمیٹی (کے پی سی سی)کے دفترمیں اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی شاندار جیت کے بعد جشن منایا گیا ہے۔اے آئی سی سی کے صدر ملکارجن کھرگے، ریاست میں پارٹی سربراہ ڈی کے شیوکمار اورسابق وزیراعلی سدارامیا سمیت کانگریس کے سینیر رہنماں نے ایک پریس کانفرنس میں اتحاد وطاقت کا مظاہرہ کیا۔
اب سب کی نظریں اس بات پرمرکوز ہیں کہ کانگریس اگلے وزیراعلی کے طور پر کسے منتخب کرے گی۔سدارامیا یا ڈی کے شیوکمارمیں سے کون کرناٹک کا نیا وزیراعلی ہوگا۔پریس کانفرنس میں کھرگے نے کہا کہ اگرچہ بی جے پی کانگریس مکت بھارت بنانا چاہتی تھی لیکن آج حقیقت میں جنوبی بھارت بی جے پی سے پاک ہوگیا ہے۔
کرناٹک میں بی جے پی کے موجودہ وزیراعلی بسوراج بومئی نے انتخابی نتائج کے بعد کہا کہ ہمارے وزیراعظم سے لے کر کارکنوں تک ہرایک کی جانب سے کی جانے والی بہت سی کوششوں کے باوجود ہم اپنی شناخت بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔انھوں نے ریاستی انتخابات میں شکست تسلیم کرلی ہے اورکہا ہے کہ پارٹی کی کارکردگی معیار کے مطابق نہیں تھی۔
انھوں نے صحافیوں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ بی جے پی کی شکست کی پوری ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم اپنی غلطیوں کا تجزیہ کریں گے اورپارلیمانی انتخابات میں واپس آئیں گے۔وزیراعظم نریندر مودی نے کانگریس کواس کی جیت پر مبارک باد دی ہے اورعوام کی امنگوں کو پورا کرنے کے لیینیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔بی جے پی کے ریاستی لیڈراور سابق وزیراعلی بی ایس یدیورپا نے بھی شکست تسلیم کرلی ہے۔
انھوں نے نامہ نگاروں سے گفتگو میں کہا کہبی جے پی کے لیے جیت اور شکست کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہم پارٹی کی ناکامی کے بارے میں غور کریں گے۔میں اس فیصلے کو احترام کے ساتھ قبول کرتا ہوں۔بی جے پی نے کرناٹک میں ایک بڑی انتخابی مہم چلائی تھی اورمودی نے خود ہندوسیاست کے اپنے مضبوط برانڈ کو فروغ دینے کے لیے ریاست کا دورہ کیا تھا۔
اپنی ایک ریلی میں مودی نے ایک نئی فلم کی تعریف کی جس میں اسلام قبول کرنے اورداعش میں شامل ہونے والی ہندوخواتین کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیاتھا۔مودی نے بندردیوتا ہنومان کو خراج عقیدت پیش کرکے ہندواکثریتی رائے دہندگان کو راغب کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔کانگریس نے اس ریاست میں سیکولرازم، غریبوں کومفت بجلی اور چاول دینے اور بی جے پی کی بدعنوانی کے الزامات پر سخت مہم چلائی تھی۔
پارٹی لیڈر راہول گاندھی نے دہلی میں کانگریس ہیڈکوارٹر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نفرت کا بازار بند کر دیا گیا ہے اور محبت کی دکانیں کھول دی گئی ہیں۔کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے ٹویٹ کیا کہ وزیراعظم مودی نے تفرقہ اورتقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی، کرناٹک میں ووٹ بنگلورو میں ایک انجن کے لیے ہے جو معاشی ترقی اور سماجی ہم آہنگی کوجوڑے گا۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ کرناٹک کے نتائج کا اگلے سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات پر محدود اثر پڑ سکتا ہے، جس میں بی جے پی کی مسلسل تیسری جیت کی توقع ہے۔نہرو،گاندھی خاندان کی پارٹی کانگریس کئی دہائیوں تک ہندوستانی سیاست پر چھائی رہی تھی لیکن گزشتہ چند عشروں سے زوال کا شکار ہے اور کرناٹک میں جیت سے اس کے زیراقتدار ریاستوں کی تعداد صرف چارہو جائے گی۔کرناٹک میں 2018 میں منعقدہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی، لیکن اس نے ایک سال بعد مبینہ طور پر حکمراں اتحاد کے ارکان کو پارٹی چھوڑنے پرراضی کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔