لاہور( این این آئی)آئین کے تقدس اور عدلیہ کی آزادی کے عنوان سے منعقدہ گول میز کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختوانخواہ کے الیکشن سپریم کورٹ کی احکامات کی روشنی میں ہونے چاہئیں،سپریم کورٹ اپنے اندرانی معاملات کو افہام وتفہیم سے مل بیٹھ کر حل کرے ،عدالت کو ریگولیٹ کرنے کے لیے
قانون سازی کا عمل اس کی آزادی ، اس کے وقار اور اتھارٹی کو نقصان پہنچانا ہے ،اس چیز کی اشد ضرورت ہے عدالتیں آئین کے اندر کام کریں ،تمام وکلا ء عدالتوں کی حمایت کرتے ہیں ،مضبوط عدلیہ کی ضرورت ہے جو آئین کے اندر رہ کر کام کرے ،ججز اپنے حلف کی پاسداری ۔آئین کے تقدس اور عدلیہ کی آزادی کے عنوان سے منعقدہ گول میز کانفرنس مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی ۔کانفرنس میں سابق جج صاحبان ،سینئر قانون دان ، بارز کے موجودہ اور سابق عہدیداران شریک ہوئے ۔کانفرنس میں چوہدری اعتزاز حسن، سردار لطیف خان کھوسہ ، سابق اٹارنی جنرل انور منصور ،خواجہ طارق رحیم، سلمان اکرم راجہ، ولید اقبال ،سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری، لاہور ہائیکورٹ بار کی قائمقام صدر ربیعہ باجوہ ،جسٹس (ر)کرامت نذیر بھنڈاری، جسٹس (ر)شبر رضا رضوی، جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال،سابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار مقصود بٹر ،سابق صدر راولپنڈی بار چوہدری اکرام ،سابقہ وائس چیئرمینپنجاب بار کونسل انتخاب شاہ،سابق چیئرمین پنجاب بار کونسل اور سابقہ صدر ہائیکورٹ بار جہانگیر جھوجہ سمیت دیگر شریک ہوئے ۔چوہدری اعتزاز احسن نے گول میز کانفرنس کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا۔اعلامیہ میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے انتخابات کروانے کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے، عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے پر وزیراعظم، وزیر قانون اور وزیرداخلہ پر ذمہ داری ڈالی جائے۔جس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے انتخابات کروانے کے فیصلے پر عمل درآمد کیا جائے،
موجودہ تنازعہ کی وجہ پنجاب اورخیبر پختونخوا ہ کے الیکشن ہیں۔اعلامیے میں کہا گیا کہ 90 دنوں میں انتخابات پنجاب اور خیبر پختوانخواہ کے عوام کا حق ہے، تمام ادارے الیکشن کے انعقاد کے سلسلے میں اپنے فرائض سر انجام دیں۔کابینہ کی منظور کردہ قرارداد غیر آئینی ہے، عدالت اس کا جائزہ لے، عدالت انتخابات میں تاخیر کا جائزہ لے،
عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے پر وزیراعظم شہباز شریف، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ پر ذمہ داری ڈالی جائے ۔اعلامیہ کے متن کے مطابق اس چیز کی اشد ضرورت ہے کہ عدالتیں آئین کے اندر کام کریں۔وزیر اعظم شہباز شریف انتخابات سے گریز نہ کریں اور بنچز کے قیام اور دیگر معاملات کو بنیاد بنا کر توجہ نہ ہٹائیں۔
سینئر قانون دان اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ کئی ہفتوں سے کہہ رہا ہوں ہمارے ادارے عدلیہ میں دراڑ پڑ گئی ہے ،اب صورتحال یہ ہے کہ بنچ کی تشکیل دیکھ کر فیصلے کا پتہ چل جاتا ہے ،الف گروپ کے بنچ کو دیکھ کا پتہ چل جاتا ہے فیصلہ کیا ہوگا ،اسی طرح ب بنچ کو دیکھ فیصلے کا پتہ چل جاتا ہے ،اس وقت اختیارات کی تاریخی جنگ جاری ہے ،
یہ دراڑیں پاکستان کے ماتھے پر بزرگی کی لکیریں ہیں ،سیاسی جماعتیں اس وقت ایک دوسرے کے دست وگریباں ہیں ،پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان ایک تاریخی جنگ شروع ہوچکی ہے ، ادارے دست و گریباں ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ ہم وہ قوم ہیں جس نے 70سال میں ایسے کھایا پیا اب اتنے بڑے قرضے میں جکڑے چکے ہیں ، ہم اگلی چار نسلوں کی کمائی بھی کھا چکے ہیں
اور ڈکار بھی نہیں مارے،ہماری اگلی چار نسلیں قرضے اتارتی رہیں گی ۔ انہوںنے کہا کہ کیا اس ملک میں آئین کی بالادستی قائم ہوئی ہے ،کیا 90 روز میں الیکشن ہونے چاہئیںیا نہیں ،اس معاملے کو بنچ کی تشکیل میں الجھا دیا گیا ہے ، آئین کہتا ہے 90 روز کے اندر الیکشن ہونے ہیں مگر اس بات کو پیچھے چھوڑ کر مختلف ایشوز سامنے لے آئیں ہیں ،وزیراعظم کہتا ہے کہ ہم بیچ کو نہیں مانتے ،
میرا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہوگا اس پر عملدرآمد کرنا ہوگا ،سپریم کورٹ نے لکھ دیا ہے تو الیکشن 14 مئی کو ہوں گے ،تمام ادارے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے پابند ہیں ،اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوا عدالت متعلقہ شخص کو بلائے گی ،توہین عدالت کی سزا پانچ سال ہے ،ہمیں سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملک میں اداروں کے درمیان تصادم کی صورتحال ہے،
اس موقع پر ایسے ہوش مند لوگوں کی بات کی ضرورت ہے جو مسائل کا حل بتائیں ،قوم اور نوجوانوں کی رہنمائی کی ضرورت ہے،اللہ نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے،اس کے باوجود ملک کا جو حال ہے یہ جناح اور اقبال کا پاکستان نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ ہماری فالٹ لائن کہاں پر ہے،آج کے دن ہم لاہور سے بات شروع کرنے کا آغاز کر رہے ہیں،پاکستان میں ایک اچھی شروعات کرنے جا رہے ہیں،ایسا پاکستان جس میں آئین کی بالادستی ہو اور عدلیہ کی آزادی ہو۔
انہوں نے کہا کہ تمام قوم اس وقت عجیب تذبذب میں مبتلا ہے ،ہمارے ملک اور تمام اداروںمیں قابلیت موجود ہے ،ہر کوئی محبت وطن پاکستانی ہے ،تمام لوگ پاکستان کی ترقی چاہتے ہیں ،آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی پر سب اکٹھے ہیں۔صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے کہا کہ اس کانفرنس کا انعقاد نہایت ضروری تھا۔ آج ملک میں اداروں کے درمیان جنگ کا ماحول ہے۔یہ بات واضح ہے کہ تمام ادارے آئین کے تابع ہیں،ہمیں تمام اسٹیک ہولڈرز کو بٹھانا ہو گا،میں نہ مانو ں کا رویہ نہیں چلے گا۔
انہوں نے کہا کہ آئین اور قانون کی تشریح سپریم کورٹ کا حق ہے،آئین میں واضح درج ہے کہ 90 روز میں الیکشن ہوں گے،اگر حکومت چاہتی ہے کہ ایک سال بعد الیکشن ہوں تو آئینی ترامیم کروا لیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے انتخابات کے انعقاد کے بارے میں تمام سیاسی جماعتوں کو بیٹھنے کا موقع دیا، ایسی کوئی قانون سازی ایسی نہیں ہو سکتی جو سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرے،عدلیہ کی آزادی کیلئے تمام بارز کھڑی ہیں،عدالت نے اگر حکم دیا ہے تو الیکشن ہوں گے۔جسٹس (ر)شبر رضا رضوی نے کہا کہ آئین میں انتخابات کروانے کیلئے اخراجات کے طریق کار کی وضاحت سے موجود ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود اگر 14 مئی تک انتخابات نہیں کروائے جاتے تو یہ آئین شکنی ہو گی۔ صرف 245 کی خلاف ورزی آئین شکنی نہیں کسی بھی آئین کی شق پر عمل نہ کرنا آئین شکنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال 1971 جیسی ہے ، اب کیا توڑنا چاہتے ہیں؟۔قوم کی معاشی صورتحال بدترین ہو چکی ہے۔ ان تمام مسائل کا حل بہت سادہ ہے کہ آئین پر عمل کریں ،آرٹیکل 224 پر عمل کرنا ضروری ہے۔انہوںنے کہا کہ آرمی چیف کا پارلیمنٹ کو خطاب خوش آئند ہے۔ آئین میں درج ہے کہ ریاست اپنے اختیارات منتخب لوگوں کے ذریعے سے استعمال کرے گی۔ ہماری عدالتوں نے پارلیمانی طرز حکومت کے حق میں متعدد فیصلے دئیے۔
پارلیمانی نظام حکومت میں وزیراعظم وفاق اور صوبے میں وزیراعلی کے دفاتر اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ آئین میں اسمبلیوں کی مدت اور اس کے جلد تحلیل کے بارے میں واضح طور پر لکھا ہے۔ آئین میں لکھا ہے کہ اگر اسمبلی اپنی مدت مکمل کرنے سے پہلے تحلیل ہو جائے تو 90 روز میں الیکشن ضروری ہیں۔جسٹس (ر)ناصرہ جاوید اقبال نے کہا کہ آئین کی بالادستی کیلئے ہر قدم اٹھانا ہونا ہے،آئین میں بڑے واضح طور پر لکھا ہے کہ 90 روز میں الیکشن ہونے ہیں ،اگر آئین شکنی کی گئی تو ملک کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے،آئین پر عمل نہ کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے۔حامد خان ایڈووکیٹ نے اس بحران سے نکل جائیں گے لیکن چند بنیادی اصولوں پر کھڑے رہنا ہوگا ،
افسوسناک بات یہ ہے کہ ہر کوئی مرضی کے مطابق آئین کی تشریح کر رہا ہے ،بعض لوگ کہہ رہے ہیں آئین کے مطابق پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن ہوں یہ آئین کی غلط تشریح ہے ،آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن ہوں گے،بھارت میں سارا سال کسی نہ کسی صوبے میں الیکشن ہو رہے ہوتے ہیں ،عدلیہ سمیت تمام اداروں کو فرض ہے کہ آئین کا احترام کریں ۔اگر آئین میں لکھا گیا ہے کہ 90 دن میں الیکشن ہونے ہیں تو آپ کسی بہانے کے ذریعے اس سے باہر نہیں جا سکتے ،سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے تمام ادارے اس پر عمل کے پابند ہیں ،یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانتے ،یہ واضح طور پر آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ،
ہم سب سے پہلے وکیل ہیں اس کے بعد ہم کسی سیاسی پارٹی کے ممبر ہیں ،بطور وکیل ہماری سب سے بڑی ذمہ داری آئین کی بالادستی ہے ،جو وکیل آئین کی عملداری کے خلاف بات کرتا ہے وہ آئین کی نفی کر رہا ہوتا ہے ۔انہوںنے کہا کہ مشرف کو وردی میں الیکشن لڑنے کی اجازت ٹیکنیکل بنیادوں پر دی گئی جو بد قسمتی تھی ۔پورا ملک سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہا ہے آپ کہتے ہیں سوموٹو نہ ہو،امید ہے سپریم کورٹ کے اندر اگر کوئی اختلافات ہیں تو وہ دور ہوں گے ،مختلف پٹیسنز دائر نہ کی جائیں اس سے خلیج بڑھے گی ،وکلا ء ان اختلافات میں ہرگز جلتی پر تیل کا کام نہ کریں۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آئین کا تقدس آزاد اور متحد عدلیہ کے بغیر ممکن نہیں،پاکستان میں جمہوری اور غیر جمہوری رویے
پہلے دن سے کارفرما ہیں۔ اصل میں جو جنگ آج ہم لڑ رہے ہیں یہ وہ جنگ ہے جو سیاسی طاقتوں کے ساتھ ساتھ دیگر طاقتوں کے ساتھ ہے۔ اگر 90 دن کی بندش کو نہیں مانتے تو پھر آئین کے ساتھ کھلواڑ ہے،ہمیں اپنے اختلافات کے باوجود آئین کو ماننا ہے،اصل بات یہ ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کو پیچھے دھکیلا جائے،یہ وہ ہی لڑائی ہے جو گزشتہ 75 سال سے لڑی جارہی ہے۔لاہور ہائیکورٹ بار کی قائمقام صدر ربیعہ باجوہ نے کہا کہ آج ہم آئین کی گولڈن جوبلی منا رہے ہیں لیکن پارلیمنٹ میں بیٹھے ہمارے نمائندے جمہوریت کے خلاف بات کر رہے ہیں ،ہمارا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ،ہم ہر اس جج کے ساتھ کھڑے ہوںگے جو آئین کے ساتھ کھڑا ہوگا،اس وقت پارلیمنٹ کی بالادستی کہاں گئی
جب قمر جاویدباجوہ کو توسیع دی اور بہت سے لوگ اپنے آنسوئوں کا ذکر کرتے ہیں ۔آپ دو صوبوں کے عوام کو نمائندگی کے حق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں ۔سیاسی جماعتیں سنجیدگی دکھائیں سیاسی جماعتیں الیکشن سے نہیں بھاگتیں۔سابق اٹارنی جنرل انور منصور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے دیباچہ میں واضح لکھا ہے کہ ریاست منتخب نمائندوں سے چلتی ہے۔ اس کے ساتھ لکھا ہے کہ ہم نے ہر صورت آئین کے مطابق چلنا ہے۔ سپریم کورٹ ایسا ادارہ ہے جس پر ہم سب کا اعتماد تھا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو متنازعہ بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔حال ہی میں یہ بیان آیا کہ صرف پارلیمنٹ ہی سب کچھ ہے۔ اس متنازعہ صورتحال کو ختم کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے خاتمے کیلئے
سپریم کورٹ میں اتحاد کی فضا بنانا نہایت ضروری ہے۔ اتحاد بنانے کیلئے سینئر وکلا ء اپنا کردار ادا کرسکتے۔سابق ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس نے کہا کہ وکلاء پاکستان اور اس کے آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جو حکومت آئین کے مطابق چلے ہمارا اس سے کوئی جھگڑا نہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی آزادی کو پہچانے ،اگر حکومت آئین سے ہٹے گی تو ہم اس کے سامنے کھڑے ہوں گے،پاکستان کا آئین سپریم ہے،تمام ادارے اور افراد آئین کے تابع ہیں،یہ حقیقت ہے اسے سمجھ لینا چاہیے ۔جو اس حقیقت کو نہیں مانے گا ہم اسے حقیقت منوا لیں گے۔ پاکستان کی عدلیہ کا پارلیمنٹ نے مذاق اڑانا شروع کر دیا ۔سپریم کورٹ کاکوئی بھی فیصلہ تمام اداروں پر مکمل لاگو ہوتا ہے۔جس طرح پارلیمنٹ کے
ممبران کا رویہ ہے میں انہیں اسمبلی کا نمائندہ کہہسکتا ہوں مگر قوم کا نمائندہ نہیں کہہسکتا۔ پاکستان کا آئین ہماری ریڈ لائین ہے،اس ریڈ لائین کو کسی کو بھی عبور نہیں کرنے دیں گے۔آئین بچانے کیلئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔جسٹس (ر)کرامت نذیر بھنڈاری نے کہا کہ حیرت ہے ایک جج صاحب دوسرے جج کو خط لکھتے ہیں اور شام کو وہ خط میڈیا پر چل رہا ہوتا ہے ،دکھ ہوا جج صاحب ان لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے جو سائلین ہیں ،اس میں کوئی شک نہیں 90 دن میں الیکشن ہونے ہیں ،خدا را آپ کا چیف جسٹس سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن چیف جسٹس کی ٹانگ مت کھنچیں۔ سابق سیکرٹری سپریم کورٹ بار اسلم زار نے کہا کہ پاکستان کو اتنی تکالیف دی گئی ہیں کہ تاریخ شرمندہ ہے ،ہم نے پاکستان سے فراڈ دھوکے اور دغابازیاں کی ہیں ،عدلیہ میں اتفاق ہونا چاہیے ۔