اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) معروف صحافی حامد میر نے اپنے کالم بعنوان سب سے بڑا المیہ میں انکشاف کیا کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی وفات کے بعد میں ان کے بارے میں تلخ نوائی سے گریز کرتا رہا لیکن وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہیں اور پارلیمان کے ایوان بالا میں ان کے لئے دعائے مغفرت پر جو گرما گرمی ہوئی وہ یہ تقاضا کرتی ہے کہ
موصوف کے جسد خاکی کو قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن کرنے والے سوچیں کہ ایسا کیوں ہوا؟جنرل باجوہ نے اپنے ”کمالِ فیض“ سے مشرف کو سنائی جانے والی سزا کو تو غیر مؤثر کرادیا لیکن اکبر بگٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی وجہ سے مشرف کے خلاف پھیلنے والی نفرت کو ختم نہ کرسکے۔میری مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی، میں ان چند صحافیوں میں شامل تھا جنہیں موصوف نے جنوری 1999ء میں کارگل آپریشن کے بارے میں بریف کیا اور صرف تین دن میں کشمیر کو آزاد کرانے کا عزم ظاہر کیا۔ بعدازاں یہ کارگل آپریشن کشمیر کی تحریک آزادی پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کا باعث بنا اور پھر یہ 12اکتوبر 1999ء کی فوجی بغاوت کا باعث بھی بنا۔ میرا اختلاف اس وقت شروع ہوا جب میں نے ہائی جیکنگ کیس میں نواز شریف کو سزائے موت دینے کی مخالفت کی۔ نواب اکبر بگٹی ابھی حیات تھے اور مجھے ان کے خلاف آپریشن کی لائیو کوریج کے منصوبے کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ انکار کے بعد سنگین نتائج سے بچنے کے لئے مجھے کچھ دنوں کے لئے بیرون ملک جانا پڑا۔ مشرف کے ایک قریبی ساتھی جو آج کل تحریک انصاف میں ہیں، انہوں نے مجھے بتا دیا کہ اس نے کچھ صحافیوں کو خریدنے کا حکم دیا ہے اور تم بھی ان میں شامل ہو۔ دوسروں کا تو پتہ نہیں لیکن مجھے جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف صرف ایک پروگرام کرنے کے 15 کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی۔
جب معذرت کی تو کہا گیا کہ ہمیں گولی مارنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، ایک ٹریفک حادثہ کافی ہوگا۔ مشرف کو کشمیری لیڈر سید علی گیلانی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ میرے تعلقات بہت برے لگتے تھے۔ فرمایا کرتے میرا ہر دشمن تمہارا دوست کیوں ہے؟