اسلام آباد (این این آئی)پاکستان میں ہرسال 18سال سے کم عمر 21فیصد لڑکیوں کو معیاری تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے بجائے اْن کی شادی کر دی جاتی ہے۔یہ مشاہدہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ (ترمیمی) بل 2022 کی ایک کانفرنس میں کیا گیا جہاں مقررین نے اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ہر سال19لاکھ لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کر دی جاتی ہے،
ان کاکہنا تھا کہ دنیا بھر میں کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی فہرست میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔کانفرنس کا اہتمام خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن نے اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کے تعاون سے کیا گیا تھا۔اس حوالے سے مختلف اسٹیک ہولڈرز اور مقررین کو مدعو کیا گیا جن میں وزارت انسانی حقوق، وزارت قانون و انصاف، وومن پارلیمانی کاکس، قانونی مدد اور انصاف کی اتھارٹی، بچوں کے حقوق کے حوالے سے نیشنل کمیشن کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتی نمائندوں کو بھی مدعو کیا گیا۔بچیوں کی کم عمری میں شادیاں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے اہم مسائل میں سے ایک ہے، ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے مجوزہ بل چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 میں کچھ ضروری ترامیم متعارف کروائی گئی ہیں۔اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ یہ بل وقت کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا مقصد بچوں کے آئینی حقوق کو یقینی بنانا ہے، آئین کا آرٹیکل 25(2) اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ریاست بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی انتظامات کر سکتی ہے۔پاکستان نے بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن (یو این سی آر سی) کی توثیق کی ہے اور ان پر عمل کرنے کا پابند ہے، اس بل سے یو این سی آر سی کے نفاذ کی کوششوں کو بھی تقویت ملے گی۔تھیلیسیمیا کی روک تھام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پارلیمانی سیکریٹری برائے انسانی حقوق سیدہ نوشین افتخار نے کم عمری میں شادی کرنے والے جوڑے کی تھیلیسیمیا ٹیسٹ کے حوالے سے نئی شقیں شامل کرنے کی شفارش کی۔انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ رپورٹس کو نکاح نامے کے ساتھ منسلک کیا جانا چاہیے
کیونکہ پاکستان میں سالانہ 6 سے 8ہزار تھیلیسیمیا کے مریضوں میں اضافہ ہورہا ہے جہاں اس کے برعکس خون عطیہ کرنے والوں کی تعداد مریضوں کے مقابلے میں کم ہے۔انسانی حقوق کے وزیر ریاض حسین پیر زادہ نے کہا کہ پاکستان میں کم عمری میں شادیوں سے ملک میں غربت میں اضافہ ہورہا ہے
اورخاص طور پر بچیوں کی صحت پر منفی اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ پاکستان میں کم عمر لڑکیاں جنسی اور جسمانی استحصال، طبی پیچیدگیوں اور دیگر جسمانی اور سماجی منفی نتائج جیسے خطرات سے دوچار ہیں، اس معاملے پر عوام میں بیداری پیدا کرنا ضروری ہے
خاص طور پر ان ممالک میں جہاں کم عمری میں شادیوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ عوام میں اس بات کا لازمی شعور ہونا چاہیے کہ شادی اْس وقت کی جائے جب دونوں جوڑے جسمانی اور ذہنی طور تیار ہوں خاص طور پر اگلی نسل کو جنم دینے کے لیے
ان کا ہر لحاظ سے صحت مند ہونا لازمی ہے۔وفاقی وزیر نے خواتین سے متعلق قومی کمیشن کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار کو تمام اہم اسٹیک ہولڈرز کا ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہونے پر مبارکباد دی، انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ ہمارے لیے ایک چیلنج ہے۔