راولپنڈی(این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماء حنیف عباسی نے اپنی ہی حکومت پر برستے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف وزیراعظم محنت کررہے ہیں، دوسری طرف وزارت خزانہ محنت رائیگاں کررہی ہے، خدا کیلئے وزارت خزانہ لوٹ ماربند کرے، انڈسٹری کے بلوں میں 11کے قریب ٹیکس لگائے گئے، جتنے ٹیکس لگائے گئے انڈسٹری والے توبھاگ جائیں گے،
سیاسی جماعتیں سیلاب کی وجہ سے 6ماہ سرگرمیاں معطل کردیں، سیلاب متاثرین کوہماری مدد کی ضرورت ہے، عمران خان کواپنے لئے فنڈ مانگنا اچھا لگتا ہے سیلاب متاثرین کے لیے بھی اپیل کریں۔راولپنڈی میں تاجر رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے لیگی رہنماء حنیف عباسی نے کہا کہ ایک طرف وزیراعظم کی محنت دوسری طرف وزارت خزانہ محنت رائیگاں کررہی ہے، خدا کے لیے وزارت خزانہ لٹ ماربند کرے،جوٹیکس دے رہے ہیں ان پرنئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں، انڈسٹری کے بلوں میں 11کے قریب ٹیکس لگائے گئے، جتنے ٹیکس لگائے گئے انڈسٹری والے توبھاگ جائیں گے، میرے ڈرائیور کو 16 ہزار بل آیا، عام لوگوں سمیت دکانداربھی بجلی کا بل دینے سے قاصرہیں۔انہوں نے کہا کہ کوئی سیکٹرایسا نہیں جوبجلی کے بلوں سے متاثرنہ ہوا ہو، کمیٹیوں کے بجائے فوری فیصلے ہونے چاہئیں، انڈسٹریز، دکانداروں پر لگائے گئے ٹیکسوں کوفوری واپس لیا جائے،ملک کی اکانومی ڈکیتی سے نہیں چل سکتی،وزارت خزانہ کی ایک ذمہ دارخاتون لوگوں کوڈرا رہی ہے،وزارت خزانہ ڈرانے کے بجائے مشکلات کا حل ڈھونڈے، جوٹیکس پہلے سے دے رہے ہیں ان پردوبارہ ٹیکس کیوں لگایا جارہا ہے،10ارب ڈالرکی انویسٹمنٹ پاکستان آرہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ تمام سیاسی پارٹیاں سیلاب کی وجہ سے 6 ماہ سرگرمیاں معطل کردیں، سیلاب متاثرین کوہماری مدد کی ضرورت ہے، عمران خان کواپنے لیے فنڈ مانگنا اچھا لگتا ہے سیلاب متاثرین کے لیے بھی اپیل کریں۔
انہوں نے کہا کہ ایک تاجر کا بل 7 لاکھ روپے آیا ہے جس میں 4 لاکھ کے ٹیکسز ہیں، عام صارفین میں 100 یونٹ والے صارف کو 4 ہزار کا بجلی کا بل آیا ہے۔تاجر رہنما شرجیل میر نے کہا کہ تاجروں سے متعلق پالیسی پر تاجروں کو ساتھ بٹھایا جائے، ہماری تجاویز سے حکومت زیادہ ریونیو حاصل کرسکتی ہے۔
تاجر رہنما ارشد اعوان نے کہا کہ بجلی کے بلوں میں زائد ٹیکسز سے ملک کی معیشت بیٹھ جائے گی، دنیا میں صنعتوں کو ریلیف دیا جاتا ہے، یہاں مشکل میں ہیں۔انہوں نے کہا کہ آدھی کمپنیاں لائف سیونگ ڈرگز نہیں بنا رہیں کیونکہ لاگت پوری نہیں ہو رہی، وزارت خزانہ میں جو لوگ بیٹھے ہیں انہیں عوام کی مشکلات کا اندازہ نہیں ہے۔