کراچی (این این آئی)عام لوگ اتحاد کے رہنما جسٹس (ر) وجیہ الدین نے کہا ہے کہ حکومت نے جوڈیشل کمیشن میں سپریم کورٹ ججز کی تعداد کم کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ ابھی چند روز قبل پاکستان جوڈیشل کمیشن میں سپریم کورٹ ججوں کی خالی اسامیوں کو پْر کرنے کیلئے جو تعطل منظر عام پر آیا تھا، اس کے شاخسانے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ کمیشن کی گزشتہ نشست میں سپریم کورٹ کے
دو حاضر سروس ججوں نے سرکاری ممبران یعنی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے مؤقف کی حمایت کی تھی اور اس طرح ججوں کی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوگئی تھی۔ ابھی اس کارروائی کی سیاہی بھی خشک نہ ہو پائی تھی کہ سینیٹ میں گزشتہ کل ایک ترمیمی مسودہ پیپلز پارٹی کی جانب سے پیش ہوا، جو قانون اور پارلیمانی امور کی قائمہ کمیٹی کو 15 روز میں رپورٹ کیلئے ارسال کر دیا گیا۔ مجوزہ ترمیم کچھ اس طرح ہے کہ آئین کی دفعہ 175 الف کے تحت سپریم کورٹ میں تقرریوں کیلئے ایک حاضر جج بمع ریٹائرڈ جج کی کمیشن سے کٹوتی کر دی جائے گی اور اس طرح جوڈیشل کمیشن کے ممبران 9 سے کم ہو کر 7 رہ جائیں گے۔ دوسری طرف ہائیکورٹ کی تقرریوں کیلئے کمیشن ممبران کی تعداد 13 سے 11 ہو جائے گی۔ نتیجتاً جوڈیشل کمیشن میں سپریم کورٹ کے ججوں میں سے 2 جج تخفیف کرنے کے بعد ان کی کم تعداد کے ساتھ حکومتی کارستانی آسان ہو جانے کے واضح امکانات ہیں۔ علاوہ اس کے ہائیکورٹ ججوں کی تقرری کے بابت صرف متعلقہ چیف جسٹس کے بجائے 2 سینئر ترین جج، ایڈووکیٹ جنرل اور ایک ممبر بار کونسل نامزدگیاں کیا کریں گے۔ جبکہ خود ایڈووکیٹ جنرل اور متعلقہ بار کونسل ممبر جج کے منصب کیلئے امیدوار ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ہماری انتظامیہ ہمیشہ عدالتوں پر تسلط کیلئے کوشاں رہی ہے۔ بمشکل تمام اس روش کا کسی حد تک سدباب سپریم کورٹ کے الجہاد کیس میں فیصلے کے ذریعے کیا گیا۔ جبکہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اس کی نفی کی کوشش
کو آئین کی انیسویں ترمیم سے رد کیا گیا۔ اب پھر عدالتوں کو الجہاد کیس کے فیصلے سے پہلے کی حالت میں دھکیلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ فی الحال تو یہ شاید مشکل ہو کیونکہ آئینی ترمیم کیلئے پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں نمائندگان کی دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے، جو کم از کم قومی اسمبلی میں تو اس وقت ہو ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ تحریک انصاف وہاں سے من حیث القوم مستعفی ہو چکی ہے۔
لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ پارلیمانی کمیٹی جہاں سے جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کو ہو کر گزرنا پڑتا ہے مزید اختیارات سے لیس کی جانے والی ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ جوڈیشل کمیشن کی تجاویز کو معمولی باتوں پر رد کرنے کی مجاز ہو گی۔ بہرحال صورتحال اس طرح اور بھی گھمبیر ہو جاتی ہے
کیونکہ وکلاء تنظیموں میں سیاسی پارٹیوں کا عمل دخل نامناسب طور پر بہت زیادہ بڑھ چکا ہے اور پہلے جس طرح وہ عدلیہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہتے تھے شاید اب متوقع نہ ہو اور انفرادی یا اجتماعی ردعمل پارٹی لائن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔