اتوار‬‮ ، 03 اگست‬‮ 2025 

بحیثیت انسان میری آزادی چھین لی گئی،افغان خواتین کی عوامی مقامات پر برقع پہننے کے طالبان کے احکامات کی مخالفت

datetime 9  مئی‬‮  2022
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کابل (این این آئی)افغان خواتین نے عوامی مقامات پر برقع پہننے کے طالبان کے احکامات پر مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے اسے قید کے مترادف قرار دیا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق افغانستان کے سپریم لیڈر اور طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ہفتے کے روز اس حکم کی منظوری دی تھی، جس کے بعد ملک میں دی گئی کچھ آزادیوں کو طالبان کی طرف سے مسلط کردہ سخت حکمرانی کی طرف دھکیلنے کا خطرہ ہے

جب وہ 1996سے 2001تک اقتدار میں تھے۔افغانستان کی سابق حکومت میں ملازمت کرنے والی ایک سماجی کارکن تہمینہ تہم جنہوں نے طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اپنی نوکری گنوا دی تھی نے غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مجھے قید رکھا گیا ہے، میں آزاد نہیں رہ سکتی، میری سماجی زندگی طالبان کی طرف سے محصور کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ میں ایک عورت ہوں یہ بات بھول جائیں مگر ایک انسان ہونے کے باوجود بھی میری آزادی چھین لی گئی ہے۔طالبان رہنما کا جاری کردہ فرمان اس بات پر زور دیتا ہے کہ حکومت میں نوکری کرنے والی خواتین اگر ان کے جاری کردہ احکامات پر عمل نہیں کریں گی تو ان کو نوکری سے فارغ کردیا جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ اگر نوکری کرنے والے مرد حضرات کی بیٹیاں اور بیویاں بھی احکامات پر عمل نہیں کریں گی تو ان مرد حضرات کو بھی نوکری سے فارغ کردیا جائے گا۔افغانستان میں اقوام متحدہ کے حکام نے اس حکم نامے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے طالبان اور بین الاقوامی برادری کے درمیان مزید تشویش پیدا ہو سکتی ہے۔مغربی شہر ہرات جسے افغان معیارات کے مطابق لبرل تصور کیا جاتا ہے کی رہائشی فاطمہ رضائی نے کہا کہ بہت سی خواتین اب منحرف ہو چکی ہیں اور زبردستی کی گئی تبدیلیوں کو قبول نہیں کریں گی۔انہوں نے کہا کہ آج کی خواتین وہ نہیں جو 20 برس پہلے تھیں،

اب وہ مضبوط اور ثابت قدم ہیں اور وہ اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے تیار ہیں۔تہمینہ تہم نے کہا کہ نئے فرمان کا خواتین کی ذاتی اور کام کرنے والی زندگی پر بہت منفی اثر پڑے گا، انہوں نے کہا کہ ان کی بہن کو اس وقت تعلیم چھوڑنا پڑی جب ان کی یونیورسٹی نے انہیں لڑکوں اور لڑکیوں کی مشترکہ کلاس میں داخلہ دینے سے انکار کر دیا تھا، بہت سے لوگ سخت جدوجہد کے بعد حاصل آزادیوں کو واپس لینے پر ناراض ہیں۔ہرات کے ہسپتال میں کام کرنے والی ایک دائی عزیتا حبیبی نے کہا کہ اسلام میں یہ کہاں کہا گیا ہے کہ عورتوں کے ہاتھ اور چہرے کو ڈھانپنا چاہیے؟

لیکن اخوندزادہ کے فرمان نے بہت سی خواتین کو اپنے مرد سرپرستوں کی حفاظت کے لیے پریشان بھی کر دیا ہے۔ایک سابق این جی او کارکن نے اپنی شناخت کے تحفظ کیلئے فرضی نام لیلیٰ سحر دیتے ہوئے کہا کہ یہاں تک کہ میں نے خود کو مکمل ڈھانپنے والا حجاب پہننے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ میرے خاندان کے مردوں کو سزا دی جائے یا ان کی بے عزتی کی جائے۔ممتاز سماجی کارکن ہودا خاموش نے غیر ملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عورت کا ایک کمزور نقطہ اس کا خاندان، اس کے بچے، اس کا شوہر ہے، طالبان نے اس کمزوری کو ہوشیاری سے استعمال کرتے ہوئے انہیں حجاب پہننے پر مجبور کیا، مگر کوئی بھی عورت گھر میں رہنے کے احکامات اور نوکری سے روکنے کے فرمان کو قبول نہیں کرے گی۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



سات سچائیاں


وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…

وائے می ناٹ(پارٹ ٹو)

دنیا میں اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے‘ ہمیں اب…