اسلام آباد (این این آئی)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد شہباز شریف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 23ویں وزیراعظم منتخب ہوگئے ۔پیر کو ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کی معذرت کے بعد پینل آف چیئر ایاز صادق نے قائد ایوان کے انتخاب کرایا، ایوان میں 5 منٹ تک گھنٹیاں بجائی گئیں جس کے بعد بعد ہال اور لابی کے دروازے بند کر دئیے گئے
اور ارکان کو اے اور بی لابی میں جانے کیلئے کہا گیا، جس کے بعد ووٹنگ ہوئی ۔ ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے پر پینل آف چیئر سر دار ایاز صادق نے نتائج کااعلان کرتے ہوئے بتایاکہ شہباز شریف کو ایوان میں 174ووٹ ملے تاہم ان کے مد مقابل شاہ محمود قریشی کوئی ووٹ حاصل نہ کر سکے ۔اعلان ہوتے ہی شہباز شریف آصف علی زر داری ، بلاول بھٹو زر داری ، جے یو آئی کے اسعد محمود سمیت تمام اتحادی جماعتوں کے سربراہان کے پاس گئے ان کے ساتھ مصافحہ اور شکریہ ادا کیا اس موقع پر تمام اتحادیوں نے شہباز شریف کو وزیر اعظم منتخب ہونے پر مبارکبا ددی ۔ شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہوتے ہی قائد ایوان کی کرسی سنبھال لی ۔ اس موقع پر مہمانوں کی گیلریوں میں موجود تمام جماعتوں کے کارکنوں نے پر پرجوش نعرے لگائے ۔یاد رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور 3 بار منتخب وزیر اعظم نواز شریف کے چھوٹے بھائی میاں محمد شہباز شریف 1950 میں لاہور میں پیدا ہوئے۔شہباز شریف میاں محمد شریف کے دوسرے صاحبزادے ہیں۔
وہ ایک بااثر تاجر ہیں اور مشترکہ طور پر اتفاق گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں، وہ 1985 میں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر بھی منتخب ہوئے،شہباز پہلی بار 1988 میں پنجاب اسمبلی کے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے،1990 میں این اے 96 لاہور 5 سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے،1993 پی پی 125 لاہور 10 کے حلقے سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔
انہیں قائد حزب اختلاف کے طور پر نامزد کیا گیا،1997 میں پی پی 125 لاہور سے تیسری مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوکر صوبے کے وزیر اعلیٰ بنے،1999 میں فوجی بغاوت کے بعد انہیں معزول کرکے سعودی عرب جلاوطن کردیا گیا۔رپورٹ کے مطابق 2007 میں 8 برس جلا وطنی میں گزارنے کے بعد واپس پاکستان آئے،2008 میں چوتھی مرتبہ بھکر سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتی۔
دوسری بار صوبے کے وزیراعلیٰ بنے،2013 میں لاہور سے ایک مرتبہ پھر اسمبلی کے رکن بنے، تیسری بار پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔رپورٹ کے مطابق 2018 میں قومی اسمبلی کے 4 حلقوں (این اےـ249 کراچی، این اےـ132 لاہور، این اےـ3 سوات اور این اےـ192 ڈیرہ غازی خان) سے الیکشن لڑے، رپورٹ کے مطابق کراچی، سوات اور ڈیرہ غازی خان سے شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ لاہور سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد انہوں نے عمران خان کے مقابلے میں وزیراعظم کا انتخاب لڑا،عمران خان 176 ووٹ لے کر وزیراعظم منتخب ہوئے اور شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔ رپورٹ کے مطابق بعدازاں شہباز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نامزد ہوئے،2018 میں ہی اپنے بڑے بھائی نواز شریف کی سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر منتخب ہوئے۔
تین دفعہ وزیرِ اعلیٰ رہنے والے اور اتفاق گروپ آف کمپنیز کے حصے دار، کامیاب کاروباری شخصیت شہباز شریف کو ایک مضبوط اور پرعزم شخص کے طور پر جانا جاتا ہے جو ایک قابل منتظم بھی ہیں۔ انہوں نے پنجاب میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے قابلِ دید کامیابی حاصل کی ہے جبکہ پنجاب کے میٹرو بس منصوبوں کو ان کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے قرار دیا جاتا ہے،وہ کئی علاقوں میں کروائے جانے والے تعمیراتی اور ترقیاتی کام پر فخرکرتے ہیں، اور انہیں لاہور کی ترقی پر بھی بہت فخر ہے۔
چند ہفتے قبل انہوں نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”پشاور اور کراچی کے لوگو، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ نے اگلے انتخابات میں ہمیں ووٹ دیا تو ہم کراچی، پشاور، سندھ، کے پی اور بلوچستان کو ویسی ہی ترقی کے لیے دن اور رات کام کریں گے جو کہ لاہور اور پنجاب میں نظر آتی ہے”۔ماضی قریب اور ماضی بعید میں اپنے بھائی کی مشکلات، جن کی وجہ سے شہباز شریف کو جلاوطن بھی ہونا پڑا، کے باوجود شہباز شریف نواز شریف سے وفادار رہے ہیں۔
مارچ 2018 میں بلامقابلہ پارٹی صدر منتخب ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ”مجھے یقین ہے کہ نواز شریف ہی وہ واحد پاکستانی سیاستدان اور رہنما ہیں، جنہیں جناح کا سیاسی وارث کہا جا سکتا ہے، نواز شریف جیسا قائد ملنا ہماری خوش قسمتی ہے۔خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس پر تاخیر کے بعد 3 اپریل کو ووٹنگ متوقع تھی تاہم 3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک کو آئین و قانون کے منافی قراد دیتے ہوئے مسترد کردیا اور اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیاتھا۔
ایوانِ زیریں کا اجلاس ملتوی ہونے کے فوراً بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھجوانے کا اعلان کیا تھا اور قوم کو نئے انتخابات کی تیاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔بعدازاں صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 58 (1) اور 48 (1) کے تحت وزیراعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے تجویز منظور کرلی تھی۔
اس تمام معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا اور 9 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا حکم دیا تھا۔
بعد ازاں ہفتے کی رات گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تھی جس کے بعد وہ وزیراعظم کے عہدے سے ہٹ گئے تھے۔قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں کے ساتھ کامیاب ہونے کے بعد وہ ملک کے پہلے وزیراعظم بن گئے ہیں جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ یاد رہے کہ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے تاہم انہوں نے اجتماعی استعفوں کااعلان کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ کے انتخاب اور ایوان کا بائیکاٹ کر دیا ۔