برلن /اسلام آباد/لاہور/کراچی (این این آئی)کامیڈی کے بے تاج بادشاہ،میزبان، فلمساز، ہدایتکار، شاعر، موسیقار، کہانی نویس اور مصور لیجنڈمحمد عمر المعروف عمر شریف 66برس کی عمر میں جرمنی میں انتقال کر گئے، شوبز شخصیات نے عمر شریف کے انتقال پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے انتقال سے فن کا ایک باب ہمیشہ کیلئے بند ہو گیا۔
تفصیلات کے مطابق لیجنڈ عمر شریف دل کے عارضہ کی وجہ سے آپریشن کیلئے ائیر ایمبولینس کے ذریعے 28ستمبر کو پاکستان سے امریکہ کے سفر پر روانہ ہوئے تھے،طویل سفر کی وجہ سے ائیر ایمبولینس نے جرمنی میں قیام کیا تاہم اس دوران ہی ان کی طبیعت بگڑ گئی جس پر انہیں جرمنی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج رکھا گیا تھا، اسی دوران عمر شریف کو نمونیا کی شکایت بھی ہو گئی۔ بتایاگیا ہے کہ گزشتہ صبح عمر شریف کے ڈائلسز کئے گئے تھے جس کے بعد سے ان کی حالت مزید بگڑ گئی اور وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ عمر شریف عارضہ قلب، گردوں اور ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھے اور گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے ان کا کراچی کے آغا خان ہسپتال میں علاج بھی کیا جارہا تھا۔ سندھ حکومت کی جانب سے عمر شریف کے علاج کے لئے خصوصی طو رپر چار کروڑ روپے کے فنڈز جاری کئے گئے اور ائیر ایمبولینس کا بھی انتظام کیا گیا۔امریکہ میں اداکارہ ریما کے شوہر ڈاکٹر طارق شہاب نے ان کے علاج معالجے کے انتظامات کئے تھے اور انہیں امریکہ پہنچنے پر جارج واشنگٹن یونیورسٹی ہسپتال میں زیر علاج رکھا جانا تھا اور اس کے بعد ان کا آپریٹ ہونا طے پایا تھا لیکن عمر شریف منزل مقصود پر پہنچنے سے پہلے ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔اداکار عمر شریف 19اپریل1955ء کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں پیدا ہوئے تھے
اور انہوں نے 70ء کی دہائی میں صرف 14سال کی عمر میں تھیٹر سے اپنی اداکاری کا آغاز کیا۔ان کا اصل نام محمد عمر تھا،وہ پاکستانی مزاحیہ اداکار منور ظریف سے بہت متاثر تھے اور ان کو اپنا روحانی استاد بھی مانتے تھے اورانہی کے نقش قدم پر چل کر اپنی کامیڈی کے خدوخال تشکیل دئیے۔ ابتدا ء میں آپ اپنا نام عمر ظریف
لکھتے تھے لیکن پھر اپنے نام کے ساتھ شریف کا لاحقہ لگالیا جس کی وجہ ان کا ہولی وڈ کی فلم ”لارنس آف عربیہ“کے مرکزی کردار نبھانے والے مصری اداکار سے متاثر ہونا تھا اور ان کا نام بھی عمر شریف تھے۔عمر شریف نے کامیڈی کا جو منفرد انداز متعارف کرایا اس میں عوامی لہجہ، چوٹی کے اداکاروں کی نقل، طنز و مزاح
سے بھرپور چٹکلے اور جگت بازی سمیت وہ سب کچھ تھا جس کا نظارہ کرتے ہی شائقین ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجاتے تھے۔ کامیڈین عمر شریف تھیٹر اور اسٹیج ڈراموں کے بے تاج بادشاہ تھے، انہوں نے ٹی وی اور فلموں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا لیکن ان کی مقبولیت کی بڑی وجہ مزاحیہ اسٹیج ڈرامے ہیں۔ عمرشریف صرف پاکستان
ہی میں مقبول نہیں بلکہ بھارت سمیت جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے وہاں ان کے مداح موجود ہیں۔کامیڈین عمر شریف نے میزبانی کے میدان میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔بکراقسطوں پے اور بڈھا گھرپہ ہے جیسے لازوال اسٹیج ڈراموں کو ان کے مداح آج بھی دیکھتے اور لطف اٹھاتے ہیں۔ عمر شریف کی خدمات کے
عوض انہیں نگار ایوارڈ، تمغہ امتیاز، میلنیم ایوارڈ سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا۔پاکستان میں اسٹیج ڈراموں کی تاریخ عمر شریف کے بغیر ادھوری رہے گی۔ انہوں نے اردو زبان پر مبنی خاص مزاج کے ڈراموں اور لہجے کو فروغ دیا۔عمر شریف نے پاکستانی فلمی صنعت میں بھی کافی کام کیا۔ کچھ فلموں میں کام کرنے کے ساتھ ساتھ ان
میں ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دئیے جبکہ کچھ میں صرف اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی چند نمایاں فلمیں جن میں انہوں نے ہدایت کاری کی اور جن کو لکھا بھی ان میں مسٹر 420، مسٹر چارلی اور مس ٹربل سم شامل ہیں۔ان کی دیگر فلمیں جن میں انہوں نے صرف اداکاری کی ان میں سب سے بڑا رپیا، حساب، کندن، خاندان،
لاٹ صاحب، مستانہ ماہی، ایکٹر، البیلا عاشق، بت شکن، ڈاٹر، مس فتنا، نہلادہلا، غنڈہ راج، چلتی کا نام گاڑی، ہتھکڑی اور پیدا گیر شامل ہیں۔ سینئر اداکار جاوید شیخ نے کہا کہ عمر شریف کے انتقال کی خبر سن کر میرے سمیت ان کے دنیا بھر میں چاہنے والے سکتے کی حالت میں ہیں۔عمر شریف کے انتقال سے فن کا ایک باب ہمیشہ
کیلئے بند ہو گیا۔میر ااور عمر شریف کا چالیس سال تک تعلق رہا۔ پاکستان میں انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں شاید ہی عمر شریف جیسا فنکار دوبارہ پیدا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ میں نے جو پہلا ڈرامہ کیا تھا وہ محترمہ فاطمہ ثریا بجیا نے لکھا تھا لیکن اس میں میر اجو کردار تھا وہ عمر شریف نے تحریر کیا تھا۔ سینئر اداکار مصطفی قریشی، ندیم بیگ، سید
نور نے عمر شریف کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عمر شریف جیسا اداکار صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے حقیقی معنوں میں فن کی خدمت کی اور ان کی وجہ سے روتے ہوئے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر جاتی تھیں۔ شکیل صدیقی نے کہا کہ آج کامیڈی کا بادشاہ دنیا سے چلا گیا۔ وہ برصغیر پاک و ہند میں برابر
مقبول تھے اور انہیں تمام فنکار عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔عمر شریف جہاں کھڑے ہو جاتے تھے وہیں میلہ لگ جاتا تھا۔ بشری انصاری، ذوالقرنین حیدر، بہروز سبزواری، اسماعیل تارانے عمر شریف کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اہل خانہ کے لئے صبر جمیل کی دعا کی ہے۔ ان اداکاروں نے کہا کہ عمر
شریف فن کی جن بلندیوں پر تھے ان کے لئے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔ عمر شریف نے حقیقی معنوں میں فن اور اپنے ملک کی خدمت کی۔ خدا کی ذات انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔ عثمان پیرزادہ، ریشم، احسن خان، معمر رانا، میرا نے کہا کہ عمر شریف جیسا انسان صدیوں میں پیدا ہوتا ہے، وہ حقیقی معنوں میں کامیڈی کے بے تاج
بادشاہ تھے اور کسی فنکار کا ان سے موازنہ نہیں۔ عمر شریف کی وجہ سے لوگوں کی چہروں پر مسکراہٹیں بکھر جاتی تھیں۔عمر شریف دل کے بھی بادشاہ تھے۔ قوی خان، عتیقہ اوڈھو نے کہا کہ انہیں معلوم تھاکہ کس وقت کیا کہنا ہے، ہمیں جب تک اسکرپٹ نہ ملے ہم بول نہیں سکتے تھے وہ ایک آنکھ سے سننے والوں کو رولا او رایک آنکھ سے ہنسا بھی دیتے تھے۔ جب وہ اسٹیج پر آتے تھے تو ان کا تالیوں سے جس طرح استقبال ہوتا تھا وہ کوئی معمولی
لمحہ نہیں ہوتا تھا۔ سہیل احمد، شہزاد رضا، عطا اللہ عیسیٰ خیلوی نے کہا کہ عمر شریف انسانیت سے بھرے ہوئے انسان تھے، انہوں نے اپنے فن کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کا فریضہ بھی سر انجام دیا، عمر شریف کے فن کو مدتوں یاد رکھا جائے گا اور جب بھی کامیڈی اداکاری کی تاریخ لکھی جائے گی وہ عمر شریف کے ذکر کے بغیر ادھوری ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اتنا بڑا فنکار ہونے کے باوجود ان میں تکبر نام کی کوئی چیز نہیں تھے بلکہ وہ خود لوگوں سے رابطہ کرتے تھے۔