راولپنڈی(این این آئی)پیرودھائی کے معروف دینی مدرسے جامعہ طوبیٰ ضیاء البنات کی 16 سالہ طالبہ سے زیادتی کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کر دی گئی جس میں طالبہ مسمہ م سے زیادتی کی تصدیق ہوگئی۔سول جج نوشین زرتاج نے تفتیشی ٹیم کی ڈی این اے ٹیسٹ کی درخواست منظور کرتے ہوئے طالبہ کے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم دے دیا۔علاوہ ازیں مدرسہ کے مہتمم مفتی شاہنواز کی گرفتاری سے
بچنے کے لیے پولیس سے مزاحمت کی دفعات میں پچاس ہزار روپے پر ضمانت منظور ہوگئی۔ ملزم مفتی شاہنواز کو پولیس نے علاقہ سول جج نوشین زرتاج کی عدالت میں پیش کیا۔ عدالت نے پولیس سے مزاحمت کی دفعہ میں ضمانت منظور کرلی۔عدالت نے ملزم کو مقدمہ میں شامل کی گئی زیادتی کی نئی دفعہ 377 میں گرفتار کرنے کی پولیس کی درخواست مسترد کردی۔ عدالت نے قرار دیا کہ ملزم کی گزشتہ روز عبوری ضمانت سینئر عدالت ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے منظور کی ہے لہذا بحیثیت سول جج میں اس پر دوبارہ غور ہی نہیں کر سکتی اس مقصد کے لئے پولیس مذکورہ اعلیٰ سیشن عدالت سے ہی رجوع کرے۔ڈیوٹی سول جج نے مفتی شاہ نواز کیخلاف زیادتی کیس میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیتے ہوئے تفتیشی آفیسر سب انسپکٹر کو تفتیش کرنے سے روک دیا۔ عدالت نے کہا کہ یہ ایک سنگین جرم ہے۔اس کی تفتیش صرف جے آئی ٹی کر سکتی ہے۔سول جج نوشین زرتاج نے پولیس کی ملزم کو گرفتار کرنے کی اجازت دینے کی استدعا مسترد کردی۔ عدالتی فیصلہ سے پولیس میں کھلبلی مچ گئی۔ تفتیشی ٹیم ،ایس ایچ او ،ڈی ایس پی ایس پی انوسٹی گیشن دفتر پہنچ گئے جہاں گرفتار ملزم مفتی شاہ نواز کی گرفتاری برقرار رکھنے یا رہا کرنے کا حتمی فیصلہ ہوگا۔ ملزم مفتی شاہ نواز تاحال پولیس حراست میں ہے۔وکیل صفائی طلعت زیدی نے کہا کہ
یہ درست فیصلہ ہے مفتی شاہ نواز گرفتاری برقرار رکھی تو تفتیشی ٹیم کے خلاف توہین عدالت درخواست دائر کرینگے۔واضح رہے کہ کیس میں پہلے صرف ہراسانی اور زیادتی کی کوشش کی دفعات لگائی گئی تھیں، جن میں ملزم نے گزشتہ روز ضمانت کرالی تھی، تاہم زیادتی کی دفعہ لگائی گئی ہے۔پولیس نے ابتدا میں کیس میں 377 بی
غلط حرکات کرنا، غیر اخلاقی چھیڑ چھاڑ کرنا، زیادتی کے لئے مجبور کرنا اور 506 شق ٹو کی دفعات لگائی تھیں۔ ان دفعات کے تحت ملزم نے 23 اگست کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اعجاز آصف کی عدالت سے30 اگست تک عبوری ضمانت منظور کر لی تاہم جونہی ملزم کچہری گیٹ پر پہنچا تو ایس ایچ او تھانہ پیرودھائی سب
انسپکٹر اویس نے اسے گرفتار کر لیا اور تھانہ لے جاکر376 فوجداری کی دفعات جبری زیادتی اور پولیس سے مزاحمت ایف آئی آر میں شامل کر دیں اور ان کی بنیاد پر گرفتاری کا جواز بنا دیا۔منگل کی صبح ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا،اور نئی دفعات کے تحت گرفتاری کی تصدیق کرنے اور اجازت طلب کی گئی، لیکن عدالت نے قابل ضمانت جرم ہونے پر پولیس مزاحمت دفعہ میں ضمانت منظور کر لی اور دفعہ 376 زیادتی میں قرار دیا کہ اس کے لئے پولیس متعلقہ عدالت سے رجوع کرے اور جے آئی ٹی بنائی جائے۔