اسلام آباد (یو این پی) اسکم ملک (بالائی نکلا دودھ) بہتر ہوتا ہے یا عام چکنائی یا ملائی والا دودھ ؟ یہ وہ سوال ہے جو کافی ذہنوں میں ابھرتا ہے۔ اس سوال کا جواب ڈنمارک میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آیا ہے۔ کوپن ہیگن یونیورسٹی کی تحقیق نیں بتایا گیا کہ اگرچہ سمجھا جاتا ہے کہ اسکم ملک کھلے دودھ کا صحت مند متبادل ہے مگر شواہد
سے معلوم ہوتا ہے کہ بازار میں ملنے والے اس چکنائی والے دودھ کے طبی فوائد اپنے متبادل سے زیادہ ہیں۔ کچا دودھ پینا صحت کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ؟ تحقیق کے مطابق چکنائی والا دودھ دل کے لیے اسکم ملک کے مقابلے میں ممکنہ طور پر زیادہ بہتر انتخاب ہوسکتا ہے۔ اس تحقیق کے دوران دونوں اقسام کے دودھ کے دوران میں پائے جانے والے صحت کے لیے فائدہ مند سمجھے جانے والے کولیسٹرول ایچ ڈی ایل کی سطح پر مرتب اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ جسم میں ایل ڈی ایل نامی کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ امراض قلب، فالج اور شریانوں کے امراض کا خطرہ بڑھاتے ہیں جبکہ ایچ ڈی ایل کولیسٹرول اس سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔ تحقیق کے مطابق عام دودھ یا فل فیٹ ملک ملائی سے پاک دودھ سے بدتر نہیں بلکہ زیادہ صحت بخش ہوسکتا ہے۔ تحقیق میں کہا گیا کہ دہائیوں سے کہا جارہا ہے کہ کم چربی والا دودھ استعمال کیا جانا چاہئے کیونکہ وہ جسم میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول کی سطح بڑھاتا ہے مگر نتائج سے معلوم ہوتا
ہے کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے یورپین جرنل آف کلینیکل نیوٹریشن میں شائع ہوئے۔ اس سے قبل امریکا میں پندرہ برس کے عرصے تک جاری رہنے والی تحقیق کے دوران محققین نے دریافت کیا کہ جو لوگ زیادہ چکنائی والا دودھ استعمال کرتے ہیں، ان میں ذیابیطس کا خطرہ 46 فیصد تک کم ہوتا ہے۔ تحقیق میں کہا گیا
کہ ایسے انسانی شواہد نہیں ملے کہ جو لوگ کم چکنائی والا دودھ استعمال کرتے ہیں وہ صحت کے لحاظ سے کھلا دودھ استعمال کرنے والوں سے زیادہ فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایسے شواہد ضرور ملیں کہ چکنائی والا دودھ ذیابیطس کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوتا ہے اور لوگوں کو اسکم ملک کا مشورہ دینا کچھ اتنا زیادہ فائدہ مند نہیں۔
اس سے قبل ایک اور تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ زیادہ چکنائی والا دودھ استعمال کرنے والے افراد میں موٹاپے کے شکار ہونے کی شرح دیگر افراد کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ یہ نئی تحقیق امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے جریدے جرنل سرکولیشن میں شائع ہوئی۔ نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔