لندن ، واشنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک،این این آئی)برطانیہ نے افغانستان میں اپنی فوج کے ساتھ بطور مترجم کام کرنے والے افغان شہریوں کو برطانیہ منتقل کرنا شروع کردیا ۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان مترجم کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم صلح الائنس نے اس حوالے سے بتایا ہے کہ منگل کی شام افغان مترجم کا پہلا گروپ برمنگھم پہنچ گیا ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی حکومت نے منتقل ہونے والے افغان مترجم اور ان کے خاندانوں کی حفاظت کے پیش نظر ان کی روانگی کے حوالے سے کسی قسم کا بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔یاد رہے برطانیہ نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ نیٹو افواج کے انخلا سے پہلے افغانستان میں تعینات برطانوی فوج کے ساتھ کام کرنے والے افغان عملے اور ان کے خاندانوں کو برطانیہ منتقل کرنے سے متعلق منصوبے پر عمل درآمد تیز کردیا جائیگا۔حکومتی منصوبے کے تحت برطانوی فوج کے لیے کام کرنے والے سابق اور موجودہ افغان کارکنان میں سے 1300 کو برطانیہ منتقل کر دیا گیا ہے جب کہ منصوبے کے تحت تین ہزار سے زائد افغانوں کو برطانیہ میں آباد کیا جائیگا۔دوسری جانب برطانیہ کی سیکرٹری داخلہ پریتی پٹیل نے کہا ہے کہ حکومت کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ عملے کو منتقل کرے اور دہشت گردی میں جنگ کے خلاف وہ جن خطرات کا سامنا کرتے رہے ہیں انہیں تسلیم کرتے ہوئے کوششوں کا صلہ دے۔افغانستان میں
سابق برطانوی اتاشی کرنل ریٹائرڈ سائیمن ڈیگنز کا کہنا ہے کہ برطانیہ منتقل ہونے والے مترجم کو پہلے چار ماہ مدد فراہم کی جائے گی جس کے بعد ان کی حقیقی جدو جہد کا آغاز ہوگا۔علاوہ ازیں امریکی انٹیلی جنس نے کہاہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد چھ ماہ کے اندر اندر افغان حکومت ناکام ہوسکتی ہے اور افغانستان ٹوٹ سکتا ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے اپنے اندازوں پر نظر ثانی کی جب طالبان نے شمالی افغانستان میں گذشتہ ہفتے بڑے پیمانے پر علاقوں اور شہروں کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ امریکی اخبار کے مطابق عام طور پر امریکی انٹیلی جنس کا نیا جائزہ جس کی پہلے اطلاع نہیں دی گئی تھی امریکی فوج کے ذریعہ تیار کردہ تجزیے کے
مطابق ہے۔فوج پہلے ہی اپنے 3500 فوجیوں اور آدھے سامان کو افغانستان سے نکال چکی ہے۔بقیہ نائن الیون تک نکال لیے جائیں گے۔گزشتہ روزکے روز طالبان جنگجوں نے تاجکستان کو ملانے والی گذرگاہ اور شاہراہ پر قبضہ کرلیا۔طالبان افغان فورسز کے درمیان مزار رشریف کے اطراف اور قنوز شہر میں گھمسان کی لڑائی جاری ہے۔