اسلام آباد(آن لائن) وفاقی وزیر برائے دفاع پرورز خٹک نے ایوان میں بجٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور انکی ٹیم کو بجٹ کیلئے مبارکباد دیتا ہوں یہ بجٹ ایک معاشی انقلاب لانے والا بجٹ ہے۔یہ لوگ تنقید کرتے ہیں میرے پر بھی تنقید کرتے تھے 5 سال بعد انکے منہ پر تھپڑ پڑا تحریک انصاف حکومت کو دوبارہ
منتخب کر کے عوام ایک بار پھر انکے منہ پر تھپڑ ماریں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ 2 سالوں میں آئی ایم ایف سے ہمیشہ کیلئے جان چھوٹے گی۔ہم جب آئے تو کارخانے بندہ تھے ہم نے آکر انہیں چلایا۔اتنے بڑے بڑے اکانومسٹ تھے پھر بھی ملک بلیک لسٹ میں کیوں گیا؟ یہ حکمران بننے آتے ہیں عوام کی خدمت کیلئے نہیں آتے اگر اپنا حق ادا نہیں کرتے تو عوام بھی پوچھے گی اور خدا بھی پوچھے گا۔ ہم جب آئے تو خزانے میں 500 بلین ڈالرز چھوڑ کر گئے تھے اس سے 1 مہینہ بھی ملک نہیں چل سکتا ہم اوورسیز پاکستانیوں کے مشکور ہیں انہوں نے ہماری بہت مدد کی۔ انکا کہنا تھا کہ ملک کنسٹرکشن سے چلتا ہے اگر انہوں نے کنسٹرکشن کیلئے امارات دی ہوتی تو ملک کہاں کا کہاں ہوتا۔یہ کہتے ہیں کہ لوگ بے روزگار ہیں مجھے بتائیں کون بے روزگار ہے لوگ سرکاری نوکری چاہتے ہیں محنت نہیں کرنا چاہتے انہوں نے کہا کہ تمام دنیا میں مہنگائی آرہی ہے اگر عوام کے زندگی بہتر ہورہی ہے تو مہنگائی کا مسئلہ نہیں ہوتا جس ملک میں مہنگائی ہو اور ملک کا پیا رک جائے تو ملک برباد ہوجاتا ہے میرے ہلکے میں آئیں اور ایک غریب دکھائیں تو مان جائوں گا۔کارخانوں اور کنسٹرکشن اکی وجہ سے ملک ترقی کرتا ہے میں کنسٹرکشن کا کام کرتا ہوں مجھے تو کام کرنے کیلئے لاگ نہیں ملتے یہ کہتے ہیں بے روزگاری ہے۔ دنیا میں کووڈ
آیا ساری دنیا کی معیشت برباد ہوئی لیکن عمران خان کی وجہ سے پاکستان کی معیشت بہتر ہورہی ہے۔پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ جتنی امارات اس حکومت نے دی آج سے پہلے کسی حکومت نے نہیں دئے۔ جو کام ہم کسانوں کیلئے اور غریب افراد کیلئے کر رہے ہیں جو امارات ہم نے دی تو انہوں نے کیوں نہیں دی کبھی۔ شہباز شریف نے کہا کہ
میرے صوبے میں کام نہیں ہوا تو میں کہتا ہوں کہ آئیں اور آپکی 20 سال کی کارکردگی اور میری 8 سال کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر عوام کو فیصلہ کرنے دیتے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ جب ہماری حکومت 2013 میں خیبر پختون خواہ میں بنی تو ہم نے عمران خان کے منشور کے مطابق رائیٹ ٹو انفارمیشن کا حق عوام کو دیا لیکن تب
تک نواز شریف کی حکومت نے وفاق میں رائیٹ ٹو انفارمیشن نہیں دی کیوں کہ وہ اپنی کرپشن چھپانا چاہتے تھے۔ہم نے وسل بلوئر قانون لائے جس کے تحت کوئی سرکاری افسر اور ایم این اے اپنی کرپشن نہیں چھپا سکتے۔انکا کہنا تھا کہ ہم ایم ٹی آئی ایکٹ لائے کیونکہ ہسپتالوں کا برا حال تھا اس ایکٹ کی وجہ سے ڈاکٹروں کو بھی سہولیات ملی
اور عوام کو بھی۔ انکا کہنا تھا کہ ہم نے فائلوں کے سسٹم کو آن لائن کیا کیونکہ ہماری حکومت سے پہلے افسران من پسند افراد کو تعینات کر کے فائلوں کو گما دیتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ درختوں کی کٹائی پر پابندی لگا دی درختوں کی کٹائی کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی ہوتی تھی اور سیلاب بھی آتی تھے۔پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ شہباز شریف
نے کہا کہ ہم نے ایک یونیورسٹی نہیں بنائی ہم نے 12 یونیورسٹیاں بنائی ہیں اور باقی سب ضلعوں میں مختلف کیمپس بنائی۔ ہمارے دور سے پہلے 180 اسکولز تھے ہم نے 3 سالوں میں 90 اسکولز بنائے ہیں اور 30 ارب روپے لگا کر اسکولوں کو اپ گریڈ کیا تمام ایوان کو بلاتا ہوں کہ آئیں اور خود وزٹ کریں کہ ان اسکولوں کا پہلے
کیا حال تھا آج کیا حالت ہے۔ ہم نے مانیٹرنگ سسٹم بنایا اس سے قبل 50 بزار ٹیچرز غیر حاضر ہوتے تھے ہمارے سسٹم کی وجہ سے کمیٹیز بنی جنکا کام اساتذہ کی حاضری پر نظر رکھنا تھا جو استاد بلا درخواست غیر حاضر ہوتا تو اسکی تنخواہ کاٹی جاتی۔اسی کٹوتی کی وجہ سے ہمیں 15 سے 20 کروڑ روپے ملتے جو ہم اسکولوں پر لگاتے
ہیں۔تقریبا 8000 اسکولوں کو سولر آئیز کیا۔ ہم نے 70 ہزار ٹیچرز بھرتی کئے ہیں اور 30 ہزار ٹیچرز مزید بھرتی کر رہے ہیں۔پولیس ایک ایسا ادارہ ہے جس سے ایک عام آدمی کا لینا دینا ہوتا ہے بااثر افراد پولیس کو استعمال کرتے تھے ہم نے پولیس ایکٹ لائے ان کوئی سیاسی فرد پولیس افسران میں رد بدل نہیں کر سکتا اور نا ہی
استعمال کر سکتا ہے۔ناصر درانی نے جو بھی پولیس کیلئے مانگا ہم نے انہیں دیا کیونکہ انکی نیک نیتی پر کوئی شک نہیں تھا۔ہم نے صحت کے نظام کو بہتر بنایا ہماری حکومت سے قبل انسانوں کے ہسپتالوں میں جانوروں کے ہسپتالوں سے بدتر صورتحال تھی ہم نے آتے ہی ڈاکٹرز بھرتی کئے 8 سالوں میں 8 ہزار ڈاکٹرز بھرتی کئے۔ ہم نے
ایمرجنسی کیلئے اربوں روپے رکھے جس فرد کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے وہ ایمرجنسی میں آکر مفت علاج کرواتے ہیں۔ ہم نے صحت انصاف کارڈز اشو کروائے ہم نے 10 لاکھ روپے سالانہ رکھے غریب آدمی کیلئے علاج کروانے کیلئے۔آپکو تو غریب لوگوں کی فکر نہیں تھی انسے جب حساب مانگتے ہیں تو حساب نہیں دیتے ملک
چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں ہم نے 1.2 بلین درخت لگائے ہیں جسکا ثبوت گوگل بھی دیتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ہم نے مساجد کی علماء کو 20 ہزار وظیفہ مقرر کیا ہے جبکہ پادریوں اور دیگر اقلیتوں کیلئے بھی وظیفے مقرر کئے ہیں۔انکو اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے یاد کروایا کہ سب سے بڑا کام ہم نے کیا کہ ختم نبوت کو نساب کا حصہ
بنایا۔ہم نے سوات ایکسپریس وے بنایا جس پر 40 ارب روپے صوبے نے خرچ کئے۔پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ ہم نے 11 ارب روپے پارکننگ پلازا پر خرچ کیے۔انکے جواب میں ممبر قومی اسمبلی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ یہ بجٹ سیشن ہے لیکن مجھے کہیں بھی بجٹ کی کتابیں نظر نہیں آرہی۔ پرائیویٹ سکٹر کا کہتے ہیں کہ ریلیف دیا ہے
لیکن پاکستان کے تاجر رو رہے ہیں کہ ہمیں کوئی ریلیف نہیں ملا۔ آپ الیکشن کیلئے قانون سازی کر رہے تھے مجھے افسوس ہوا کہ جس دن قانون سازی ہوئے اس دن بھی دھاندلی کی گئی حکومت کی جانب سے قانون سازی کو بلڈوز کیا گیا۔ جمعیت علمائے ف کی تمام کارکنان کی مطالبہ ہے کہ تمام قانون سازی کے بلز واپس لایا جائے اور
قانون کے مطابق بحث ہو۔یپ ایچ اے ایکٹ بناگا گیا تھا لیکن اسپر عمل درآمد کب کیا جائے گا۔ایک طرف بلین ٹری کا دعوٰی ہے لیکن پاکستان سیکرٹریٹ میں بھی پلاسٹک کے پودے ہیں۔ دفائی بجٹ بڑھایا گیا ہے اس میں غیر منصفانہ تقسیم نہیں ہونی چاہیے اور اسکا ذیادہ حصہ سرحدوں پر کھڑے جوانوں کیلئے مختص کیا جائے۔ہمارے بجٹ سیشن
کے تین دن زائع ہوئے ہیں اسلئے بجٹ سیشن میں اضافہ کیا جائے۔وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور ڈویژن عمر ایوب خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آج موقع ملا حقائق پر بات کرنے کا ایوان میں لیڈر آف اپوزیشن نے تقریب کی بلاول نے بھی کی۔میں کل سوچ رہا تھا کہ اس مقدس ایوان میں کھڑے ہوکر ہمیں سچ بولنا چاہیے لیکن
یہاں پر حقائق پر بات نہیں ہوئی جو گلے کر رہے ہیں کہ پہلے کی باتیں کیوں کر رہے ہیں تو اس لئے کر رہے ہیں کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں انکا کہنا تھا کہ معیشت کا دیوالیہ نکال کر ہمیں نواز شریف نے حکومت دی۔کہتے ہیں کہ پیٹی آئی کچھ نہیں کر رہی تو آپنے کیا کیا ہے؟ آپکے دور میں صوبوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا نہیں کی ابھی راجہ
پرویز اشرف نے بات کی کہ ہم نے بہت اچھی کارکردگی کی ہے انکے دور کی پلاننگ کمیشن رپورٹ ہے کہ انہوں نے معیشت کو برباد کر دیا ہے سی پیک کے باوجود یہ رپورٹ کہتی ہے کہ انکی حکومت میں کوئی انوسمنٹ نہیں ہوئی۔ انکا کہنا تھا کی غلط پالیسی کی وجہ سے انکی امپورٹ کی وجہ سے قرضہ مزید بڑھا۔معیشت ہمارے ہوالے
کی تو 20 ارب ڈالر کا کرنٹ ڈفیسٹ تھا۔کہا تھا کہ 5.5 فیصد جہ ڈی پی تھا پھر بھی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اور قرضے لینے پڑیں گے۔انکی اپنی رپورٹ پلاننگ کمیشن میں پڑی ہے خود دیکھ لیں۔عمر ایوب خان نے کیا کہ شہباز شریف نے کہا تھا کہ جھوٹ بولا تو جھک کر معافی مانگوں گا اب تمام جماعت کیلئے چٹائی لگا دیں سب مل کر
معافی مانگیں اور سجدہ دیں۔ری نیوایبل انرجی کی بات کرتے ہیں وہ بھی پروجیکٹس ہماری حکومت لائی ہے انہوں نے کہا کہ شمسی توانائی بڑھ گئی ہے جو ٹیرف نیچے آیا ہے؟ ہم نے کرپشن نہیں کی اسی لئے بجلی اور دیگر چیزوں کا ریٹ نیچے آیا ہے۔کارخانوں کی کرایہ پیمنٹ 104 ارب روپے کی تھی انکی حکومت گئی تو 468 ارب
روپے ہوگئی تھی انہوں نے کہا کہ مارکیٹ ریفارمز انہوں نے نہیں کی اگلے 15 سالوں میں 4000 ارب روپے کا فائدہ ہو گا عمران خان کی وجہ سے۔آر ایف او فیول آئل چڑھا ہے مسلم لیگ نواز کی حکومت میں انکا آر ایف ار یوزج 15 فیصد پر تھا ہم 3 سال میں 4 فیصد پر آگئے۔پاکستان اسٹیٹ آئل میں بھی بدترین کرپشن کی نندی پور
پروجیکٹ میں یپ ایس او کو 64 ارب روپے کا نقصان پہنچایا اس سال سرکلر ڈیٹ مسلم لیگ نواز کے دور سے 100 ارب روپے کم ہوگا کسی اگریمنٹ کے بغیر مسلم لیگ نواز حکومت نے بجلی کے پروجیکٹ کئے ہیں عمر ایوب خان نے کہا کہ این پی سی سی نے کہا کہ پروجیکٹ میں 80 ارب روپے کا نقصان ہے نہ بنائیں 90 فیصد
وقت تو چلے گا ہی نہیں پروجیکٹ پر کام کرنے والے ٹھیکیداروں کو پیسے نہیں دئے گیس پسکالی کا اگریمنٹ نہیں کئے اور نا ہی کوئی اور اچھا پروجیکٹ کیا بس ایسے پروجیکٹوں پر پیسے برباد کئے عوام کے۔انکا کہنا تھا کی ایل این جی کا 4000 میگا واٹ کا پروجیکٹ ختم کر دیا بجلی بھی مہنگی بیچی۔کنٹریکٹ میں لکھا کہ 70 فیصد گیس
ضرور اٹھانی پڑے گی چاہے ضرورت ہو کہ نا ہو اگر نا لی تو فائن ہوگا۔قطر کے ساتھ جو مائدہ کیا اسکی وجہ سے بھی 70 ارب روپے کا نقصان پڑ رہا ہے ہماری حکومت نے قطر کے ساتھ نیا کنٹریکٹ سائن کیا ہے اسکا فائدہ 3.5 ارب ڈالر ہوگا اگلے دس سال میں۔مسلم لیگ نواز کی حکومت 2 ٹرمنلز نے کنٹریکٹ سائن کیا 2.5 ارب روپے کا
ٹیکا لگایا سالانہ آپ استعمال کریں یا نا کریں اور ہم نے اسی قطر کے ساتھ دوبارہ کنٹریکٹ کر کے 3.5 ارب ڈالر کا فائدہ دلوایا۔آج گیس کے سیکٹر میں انکی غلط پالیسیوں کی وجہ سے سرکلر ڈیٹ آیا ہیانکا کہنا تھا کی جی آئی ڈی سی کا 295 ارب روپے کا کدھر گیا ہم ڈھونڈتے رہے ہیں ڈیٹ ٹو جی ڈی پی رپورٹ 1.7 فیصد بڑہی ہے دنیا کی 15
فیصد بڑھا ہے۔انکی “میں” کی وجہ سے ملک کو 23 سے 24 ارب ڈالر کا ٹیکا لگا کر گئے ہیں آپکی اپنی کمیشن رپورٹ کہتی ہے۔1.419 بلین ڈالرز 150 ارب روپے سے بھی زیادہ بنتا ہے سندھ حکومت کے پاس Un Spent ہیں جو انہوں نے خرچ نہیں کئے ان کے پاس پڑے ہیں وہ کہاں گئے؟ پروجیکٹس میں کیوں نہیں لگائے۔پانی کے
پراجیکٹس ترقیاتی منصوبوں پر بھی نہیں لگایا گیا منصوبے سائن ہوئے پڑے ہیں انپر پیسے نہیں لگا رہے۔ اس وقت تک 220 ارب روپیا سندھ کے پاس پڑے ہوئے ہیں جس پر پاکستانی سود دیتے ہیں وہ جو منصوبے شروع ہیں لیکن ٹھپ پڑے ہیں انہر پیسا نہیں لگا رہے۔ہمارے ترقیاتی منصوبوں اور غریب عوام کیلئے منصوبوں کی وجہ سے
اپوزیشن کی راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔ہم نے لوکسٹ کیلئے ایک ارب روپے مختص کئے 100 ارب روپے ڈیمز کی کنسٹرکشن کیلئے مختص کئے کامیاب پاکستان پروگرام کیلئے 10 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوے انہوں نے کہا کہ اس بجٹ میں غریب بیوہ خواتین کے لیے 260ارب روہے
رکھے گئے ہیں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسانوں کا خیال رکھا گیا ہے 12ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے بلا سود قرضے دیئے جائیں گے یومیہ تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے 17ہزار سے بڑھا کر 20ہزار روپے کر دیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کا پاکستان کو زیادہ نقصان ہو رہا ہے ایک طرف سیلاب سے تباہ کاریاں ہو
رہی ہیں گلیشیر پگل رہے ہیں خشک سالی ہے ٹمبر مافیا نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا ہے گزشتہ حکومت کی ترجیحات ماحولیات نہیں فضولیات تھیں ہم نے 14ارب روپے ماحولیات کے لیے رکھے ہیں دس ارب درخت لگانے کا منصوبہ شروع کیا تھا جس میں ایک ارب درخت لگا چکے ہیں باقی بھی اپنا ٹارگٹ پورا کریں گے ہمیں اس
حوالے سے کانفرنس کی میزبانی بھی دی گئی اور عمران خان نے اس سربراہی کی تھی انہوں نے کہا کہ عمران خان فوڈ سکیورٹی کا سوچھتے ییں یہ کام ایک بڑا لیڈر کر سکتا ہے انہوں نے کہا کہ عثمان بزدار نے بہت اچھا بجٹ ہیش کیا ہے جس میں ہیلتھ اور تعلیم کے بہت کچھ رکھا گیا ہے انہوں نے کہا کہ ڈی جی خان کی بچیوں سے وعدہ کیا
تھا ان کے لیے ڈیرہ غازی خان میں بچیوں کے پہلی خواتین یونیورسٹی بنائی جائے گی ۔ ادھر پاکستان کی تمام بچیوں کے حق کی آواز اٹھائی جائے ،ٹیلی فون پر لیڈر بننی والی لیڈر میں جرت ہے تو ہماری طرح سے الیکشن لڑ اسمبلی میں ائے ایدھر وفاقی وزیر تھے دوسرے ملک جا کر چوکیدار بن کر اقامہ حاصل کر لیتے ہیں اے این پی
کے مرکزی رہنما و ایم این ایامیر حیدر ہوتی نے کہا کہ ہم سے پہلے بھی ہمارے بزرگ اس پارلیمنٹ کا حصہ رہے ییں وہ جو ہمارے لیے اچھا چھوڑ کر گئے ہیں اس کو یاد رکھیں اج وزیرستان کے لوگ ،سکھر اور سیالکوٹ کے عوام کی نمائندگی اسمبلی میں نہیں ہو رہی علی وزیر،خورشید شاہ ،خواجہ آصف ایوان میں موجود نہیں ہیں جبکہ
انکا اجلاس میں موجود ہونا اسپیکر قومی اسمبلی کی ذمہ داری ہوتی ہے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو دس سال سے وسائل نہیں دیے گئے اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ان کا حق دیا جائے ہم صوبوں کو حق نہ دے کر آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ بجٹ میں جو طے ہوتا ہے کہ صوبے کو اتنے پیسے
دیئے جائیں گے جب وہ بھی نہیں ملیں گے تو صوبہ کیسے ترقی کرے گا این ایف سی ایوارڈ پر جرگہ بولائیں میں سب سے پہلے آوں گا صوبے میں الحاق ہونے والے اضلاع کو تیں فیصد مل رہا ہے لوگوں کو الحاق سے نفرت ہو رہی ہے ان کو حق نہیں مل رہا انہوں نے کہا کہ ایک بار پھر دہشتگرد اکھٹے ہو رہے ہیں ٹارگٹ کلرز بڑھ رہے ییں
چالیس سال لگے ہیں اس آگ سے نکلنے میں کیا دوبارہ اس اگ میں جانا چاہتے ہیں امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہ رہا ہے اس کو اپنی ہڑی ہے اگر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تو یہ آگ پاکستان میں بھی پھیلے گی اس پر سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ ہم اس پر ان کیمرہ اجلاس بلائیں گے اس بجٹ کے بعد امیر حیدر خان نے کہا کہ
ہمیں فصلوں کے بیجھ ایکسپورٹ کرنے تھے لیکن ہم امپورٹ کر رہے ہیں زراعت کو بہتر کرنے کے لیے کسانوں کو سپورٹ کرنا ہوگا ،پانی کی جو سکیمیں شروع کی گئی ہیں ان کو مکمل کیا جائے 186 واٹر کورسز تاخیر کا شکار ہیں جس کی وجہ سے پانی ضائع ہو رہے ہیں سندھ طاس معاہدے کے تحت تمام صوبوں کو پانی کا حصہ ملے
گا اگر انفراسٹرکچر نہیں ہو گا تو خیبرپختونخواہ اپنا پانی کیسے استعمال کریں گے کرونا وائرس سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی ہے اگر یونیورسٹیوں سے کہا جائے گا کہ اپنے وسائل خود بڑھائیں تو کیا کریں گے وہ بوجھ بچوں پر ڈالیں گے پی ایس ڈی پی میں اعلیٰ تعلیم کے لئے ڈیمانڈ 150 ارب روپے کی تھی لیکن 60 ارب روپے ہائیر
ایجوکیشن کمیشن کے لیے رکھے گئے ہیں تو باقی کہاں سے آئیں گے انہوں نے کہا کہ دوکرورڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے آ گئے ہیں 50 لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں ہمارا فوکس صرف لنگر خانوں پر نہیں ہونا چاہیے لیکن زراعت اور انڈسٹری پر فوکس ہونا چاہیے جس سے روز گار ملے گا دس فیصد تنخواہوں میں اضافہ بہت کم
ہے اس کو بڑھایا جائے ہمیں بتایا جائے کہ ہم بنگلہ دیش یا سری لنکا سے منتخب ہوکر ائے ہیں اپ نے کہا تھا کہ دو نہیں ایک پاکستان لیکن ہمیں نے کس سے بات کرنی ہے تاکہ ہمیں بھی حق ملے۔ مسلم لیگ نواز کے ممبر قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف نے کہا کہ حکومت کے وزراء لمبی لمبی تقریریں کر رہے ہیں نئے قوانین بن رہے ہیں
قوانین موجود ہیں اگر نیت صاف ہو تو موجودہ قوانین کافی ہیں۔انکا کہنا تھا کہ انکا حکومت چلانیکا طریقہ غلط ہے چاروں صوبوں میں مقبول لیڈرشپ کا قتل ہوتا ہے تو اس پر بات کریں تو وہ جرم ہے آپ آئین قانون کی بات کرتے ہیں تو آپ غدار کیسے بنتے ہیں۔عوام کو حق ہو کہ وہ اپنے مسائل کا حل اپنے ایم این ایز کو بتا سکیں۔بلاول کو
پرچی چیئر مین کہا اور مریم پر بھی بات کی۔بلاول بھٹو نے اپنی ماں کو اور اپنے نانے کو کھویا۔ مریم نے اپنے والد کے ہمراہ جیل کاٹی انکی جیل سیل میں کیمرے لگائے گئے آپکی مائوں بہنوں کے سیل میں کیمرے برداشت کر سکتے ہیں کیا؟ یہاں ٹیکے کی بات کی گئی عمران خان نے کہا کہ جب مجھے انجیکشن لگایا گیا تو مجھے ہسپتال کا
اسٹاف ہوریں نظر آرہی تھی۔ عمران خان صاحب نے جو عوام کا حال کیا تو عوام کو دنیا بھی دوزخ نظر آرہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی راجہ پرویز اشرف اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ پر اپوزیشن کی تنقید اور تجاویز پارلیمانی نظام کا حصہ ہے،آج ہماری قائد شہید بینظیر بھٹو کی سالگرہ کا دن ہے،بینظیر بھٹو اس ایوان کی
قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈر رہ چکی ہیں،اس ایوان نے کئی ادوار دیکھے، ڈکٹیٹر نے ایوان کے اختیارات سلب کیے،صدر آصف علی زرداری نے تمام اختیارات اس ایوان کو واپس کیے،اس خاندان نے اس ایوان کی توقیر کیلئے جانوں کی قربانیاں دیں،خدا کرے جمہوریت کا یہ سفر رواں دواں رہے،جمہوریت میں مشکلات اور سخت وقت اتے
ہیں،منزل کو سامنے رکھنے والی قومیں کامیاب ہوتی ہیں،جمہوریت ہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم کامیابی کی منزلیں طے کر سکتے ہیں راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ معاملات کو حد سے زیادہ معاملات کو اگے لیکر جانا اس ایوان کے ساتھ زیادتی ہے،یہ ایوان 22 کروڑ عوام کا نمائندہ ایوان ہے،عوام کے احساسات کی ترجمانی کرنا
حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ذمہ داری ہے ،غصہ میں وہ حدود نہیں پھلانگنی چاہئیں،قانون سازی سے عوام کی زندگیاں اسان کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے،قانون سازی دونوں جانب کی مشاورت سے ہونی چاہیے،چند ووٹ زیادہ ہونے سے قانون سازی کرنے سے آدھے پاکستان کو ان کے حق سے محروم کیا جاتا ہے،حکومت قانون سازی
کرتے ہوئے اپوزیشن کو بلڈوز کرے گی تو شورشرابہ اور افرا تفری ہوگی،انہوں نے کہا کہ اس ایوان کو ایسے انداز میں چلایا جائے جو سب کیلئے باعث توقیر ہو،آمدن اور اخراجات کا تخمینہ بجٹ کہلاتا ہے،ہر حکومت کوشش کرتی ہے ایسے بجٹ لایا جائے جس سے ان کی نیک نامی ہو،جو مرضی معاشی اعشاریے لے آئیں آئیڈیل بجٹ نہیں بنایا
جاسکتا،عام شہری تک بجٹ کے ثمرات پہنچنے چاہیئں،اگر معاشی اعشاریے اچھے ہوگئے ہیں تو پھر مہنگائی نے کیوں عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی؟تین سال گزرنے کے بعد بھی وہی وعدے کیے جارہے ہیں جو الیکشن کے وقت کیے جاتے تھے،پانچ سالہ پروگرام تین سال میں آدھا مکمل تو ہونا چاہیے تھا،نوکریوں، گھروں، قرضوں کے وعدوں
پر کس حد تک عملدرآمد ہوگیا ہے؟وعدوں پر ایک فیصد عمل نہیں ہوا تو کیا سمجھا جائے،آپ تو پہلے دن کام کرنے کی بجائے اپوزیشن سے دست و گریباں تھے،شروع دن سے ہر ناکامی پر اپوزیشن کو چور ڈاکو کہا گیا آج بھی وہی رویہ ہے،تین سال اس بات پر گزار دیے کہ کام کی بجائے گالیاں دینا اور لینا شروع کردیں،کیا پانچ سال اپوزیشن پر
الزامات لگانے کیلئے حکومت بنائی گئی؟راجہ پرویز اشرف،نے کہا کہ حکومت فاٹا کی سٹیل انڈسٹری کو مراعات دے لیکن اس کا دوسرے صوبوں پر فرق نہیں پڑنا چاہیے،کون سا طبقہ ہے جو اس بجٹ سے فائدہ اٹھائے گا؟کورونا کے باعث پڑھائی نہیں ہوئی اچانک طلبہ کے امتحانات لینے کا فیصلہ کیا گیا،پورے ملک میں طلبہ آج سڑکوں پر
سراپا احتجاج ہیں،اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو امتحانات کا معاملہ دیکھے،الیکشن سے متعلق اپوزیشن کو بلڈوز کر کے حکومت نے قانون سازی کی،الیکشن کمیشن نے الیکشن بلز کی 13 شقوں کی نشان دہی کی جو آئین کے متصادم ہیں،بابر اعوان ایسا کوئی طریقہ نکالیں جس سے منظور شدہ
بلوں پر دوبارہ بات ہوسکے،باہمی مشاورت سے ایسے قوانین بنائے جائیں جس سے صاف اور شفاف الیکشن کی راہ ہموار ہو،انہوں نے کہا کہ اس ایوان میں ہوا ایک دوسرے پر بجٹ کی کاپیاں پھینکی گیئں یہ بہت افسوسناک ہوا ہے اگر کوئی کسی کے لیڈر کو گالی دے گا تو وہ آپ کے لیڈر کو کالی دے گا اس لیے اس طرح کے رویے کا خاتمہ ہونا چاہیے اس طرح کا واقعات دوبارہ نہیں ہونے چاہیں اس حوالے سے ایک ایسی پالیسی بنائی جائے کہ آئندہ ایسا واقع رونما نہ یو سکے۔