اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بجٹ اہداف بالخصوص اضافی ٹیکس اقدامات کے ذریعے 300 ارب روپے کا حصول، پٹرولیم لیوی میں اضافہ اور بجلی ٹیرف میں اضافے کا درست ٹائم فریم پر حتمی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ تاہم، پاکستان کے اعلیٰ حکام پراعتماد ہیں کہ بات چیت جاری ہے اور بجٹ 2021-22 سے قبل اس پر
حتمی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔ روزنامہ جنگ میں مہتاب حیدر کی شائع خبر کے مطابق ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ ان شااللہ ہم بجٹ اعلان سے قبل ہی آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات مکمل کرلیں گے، جس کی جھلک بجٹ میں نظر آئے گی۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے فنانس اینڈ ریونیوز ڈاکٹر وقار مسعود مذاکرات کے عمل میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور کوشش کی جارہی ہے کہ مذاکرات کو آئندہ 24 گھنٹے میں مکمل کرلیا جائے۔ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ اگر اختلافات برقرار رہے تو مذاکرات پارلیمنٹ سے بجٹ منظوری تک جاری رہیں گے کیوں کہ حکومت کے پاس کچھ ترامیم کرنے کا موقع ہوگا۔ طرفین کے درمیان چند بڑے مسائل ہیں، جیسا کہ آئی ایم ایف کلیئر کٹ چاہتا ہے کہ ایف بی آر 58 کھرب روپے کا ٹیکس ہدف حاصل کرے۔ نامیاتی نمو ایف بی آر ہدف کو 53 کھرب روپے تک پہنچاسکتی ہے۔ اگر وہ رواں مالی سال کے 47 کھرب روپے کو مدنظر رکھیں تو ایف بی آر کو باقی ماندہ 480 ارب روپے قومی خزانے میں
جمع کرنے کے لیے اضافی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ایف بی آر نے تخمینہ لگایا ہے کہ ٹیکس استثنا ختم ہونے سے 80 سے 140 ارب روپے حاصل ہوسکتے ہیں لہٰذا آئی ایم ایف چاہ رہا ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ باقی ماندہ رقم بھی حاصل کرکے آئندہ بجٹ کا 58 کھرب روپے کا
ہدف مکمل کرلیا جائے۔ ایک اور اہم مسئلہ پٹرولیم لیوی کا ہے کیوں کہ آئی ایم ایف نے اس کے ذریعے آئندہ بجٹ میں 600 ارب روپے جمع کرنے کا تخمینہ لگایا ہے لہٰذا حکومت کو یکم جولائی، 2021 سے پٹرولیم مصنوعات پر 30 روپے فی لیٹر ٹیکس جمع کرنا ہوگا۔ پاکستانی حکام چاہتے ہیں کہ پٹرولیم لیوی میں 450 ارب روپے سے 500 ارب روپے تک کی کمی کی جائے۔