واشنگٹن + کابل (این این آئی+ آن لائن)امریکی فوجی اڈوں کے بارے میں افغان طالبان نے کہا ہے کہ خطے میں غیرملکی افواج کی موجودگی بے امنی کی اصل وجہ ہے۔ ترجمان افغان طالبان کی جانب سے جاری بیان میں کہاگیاکہ انخلا کے بعد افغانستان کے پڑوسی ملکوں میں امریکی اڈوں کی باتیں ہورہی ہیں۔ ڈاکٹر نعیم وردگ نے
کہاکہ ہم ہمسایہ ملکوں سے غیرملکیوں کو اڈے نہ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں، امریکا کو اڈے دینا تاریخی غلطی ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ اگر اڈے دیئے گئے تو افغان قوم اس بارے میں خاموش نہیں بیٹھے گی، ہم نے بار بار افغان سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے،ہمارے ہمسایہ بھی اپنی سرزمین افغانستان کے خلاف استعمال نہ کرنے دیں۔دوسری جانب فغانستان کے حکام نے کہا ہے کہ پاکستان کا افغان امن سے متعلق ایک کانفرنس کی میزبانی کرنے کا امکان ہے۔ذرائع افغان حکام کے مطابق مذکورہ میٹنگ کو افغان حکومت اور طالبان کے مابین اعلیٰ سطح پر منعقد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔افغان حکام کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر پاکستان میں کانفرنس کو حتمی شکل نہیں دی گئی، تاہم فریقوں نے تبادلہ خیال کیا ہے۔دوسری جانب افغان طالبان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں افغان امن سے متعلق کسی بھی کانفرنس کے انعقاد سے آگاہ نہیں ہیں۔امریکا کے محکمہ دفاع نے کہا ہے کہ وہ پاکستان اور خطے میں موجود دیگر ممالک سے ان کی سرزمین پر فوجی اڈے بنانے کے امکانات سمیت مختلف آپشنز پر بات چیت کررہے ہیں لیکن وہ مذاکرات بے نتیجہ رہے۔ پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی سے میڈیابریفنگ کے دوران سوال کیا گیا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد خطے میں
دہشت گردی کے خلاف آپریشنز جاری رکھنے کے لیے ممکنہ بیسنگ معاہدوں کے حوالے سے کوئی اپ ڈیٹ ہے؟’اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے انخلا کے بعد بیرون ملک اڈوں کے امکان کے حوالے سے میرے پاس کوئی خاص اپ ڈیٹ نہیں ہے’۔پریس سیکریٹری کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کی صلاحیت
کے لیے ہم قابل اعتبار اور قابل عمل آپشنز اور مواقع تلاش کررہے ہیں اور ایسے بہت سے طریقے ہیں جن سے ایسا ہوسکتا ہے، اوورسیز بیسنگ ان میں سے صرف ایک آپشن ہے، لہذا اس حوالے سے ابھی کوئی رپورٹ موجود نہیں ہے۔پریس سیکریٹری جان کربی نے عندیہ دیا کہ افغانستان تک رسائی کے لیے امریکا، خطے کے دیگر ممالک
سے بھی مشاورت کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں کسی بھی ملک کے حوالے سے زیادہ تفصیل سے بات نہیں کروں گا۔اس سے قبل ابتدائی بیان میں جان کربی نے کہا تھا کہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے 24 مئی کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مشترکہ علاقائی مفادات اور مقاصد پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے فون پر
بات چیت کی تھی۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ گفتگو کے دوران امریکی سیکریٹری دفاع نے افغان امن مذاکرات میں حمایت پر پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور پاک-امریکا دو طرفہ تعلقات برقرار رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔یاد رہے کانگریس میں ہونے والی حالیہ سماعت میں امریکی سیکریٹری ہند۔ بحر الکاہل امور کے لیے اسسٹنٹ سیکریٹری برائے دفاع ڈیوڈ ایف ہیلوے نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا تھا کہ ‘پاکستان نے افغانستان میں
ہماری فوجی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت اور زمینی رسائی دی’۔جس کے بعد ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ پاکستان نے امریکی فوج یا فضائیہ کو کوئی اڈہ نہیں دیا اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ اس حوالے سے جاری قیاس آرائیاں بے بنیاد اور غیر ذمے دارانہ ہیں اور ان سے گریز کیا جانا چاہیے۔