لاہور(این این آئی )پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے منحرف رکن اسمبلی مولانا غیاث الدین کی جانب سے نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرنے کے دوران لیگی اراکین نے لوٹا لوٹا کے نعرے لگا دئیے ، صوبائی وزیر ہائوسنگ میاں محمود الرشید کی جانب سے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے کچھ اراکین کے وفادار ی تبدیل کرنے کے تذکرے پر لیگی اراکین سے نوک جھونک ہوئی ،محکمہ کان کنی و معدنیات کے سوالات کے جوابات متعلقہ وزیر کی بجائے صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے دئیے
تاہم اراکین کے مطمئن نہ ہونے کے سبب باقی سوالات موخر کر دئیے گئے ، صوبائی وزیر سید حسین جہانیاں گردیزی نے ایوان میں زراعت پر عام بحث کا آغاز بھی کر دیا ۔پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز بھی مقرر ہ وقت کی بجائے 2 گھنٹے 10 منٹ کی تاخیر سے پینل آف چیئر مین عبداللہ وڑائچ کی صدارت میں شروع ہوا ۔اجلاس میں محکمہ کان کنی و معدنیات کے بارے میں سوالوں کے جوابات دئیے جانے تھے تاہم متعلقہ وزیر کی عدم موجودگی کے باعث وزیر قانون راجہ بشارت نے جوابات دئیے ،اراکین وزیر قانون کی جانب سے دئیے گئے جوابات سے مطمئن نہ ہوئے جس پر پینل آف چیئرمین نے بقیہ سوالات موخر کردیئے ۔اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے منحرف رکن مولانا غیاث الدین نے نکتہ اعتراض پر بات کرنے کرنے کے دوران لیگی اراکین نے شور شرابا کرتے ہوئے لوٹا لوٹا کے نعرے لگائے ۔جس پر وزیر ہائوسنگ میاں محمود الرشیدغصہ میں آگئے اور کہا کہ اپوزیشن بنچوں پر بھی لوٹے بیٹھے ہوئے ہیں ، اپوزیشن بنچوں پر بعض لوگ کئی پارٹیاں تبدیل کرکے بیٹھے ہوئے ہیں ،ان کو حق نہیں بنتا کہ وہ لوٹے لوٹے کے نعرے لگائیں، ایوان میں سمیع اللہ خان اور عظمی بخاری کو لوٹوں کی بات نہیں کرنی چاہیے ۔جس پر سمیع اللہ خان نے کہا کہ اس ایوان میں 371ممبران ہیں جن میں سے بیشتر نے دوطرح سے پارٹیاں چھوڑی ہیں،بے شمار ایسے لوگ ہیں جن میں سے کچھ نے وقت مکمل اور کچھ نے وقت سے پہلے وفاداریاں تبدیل کر لیں، محمود الرشید سے صرف اتنا کہوں گاکہ آپ اپنے وزراء کی لسٹ چیک کر لیں، 2018ء کے انتخابات سے چھ ماہ قبل عثمان بزدار کس جماعت میں تھے اس کا بھی پتہ کر لیں تاکہ ریکارڈ کی درستگی ہو جائے۔صوبائی وزیر زراعت سید حسین جہانیاں گردیزی
نے ایوان میں زراعت پر عام بحث کا آغاز کیا اور کہا کہ ہم نے حکومت سنبھالتے ہی زراعت پر توجہ مرکوز کی جس کے تحت زراعت میں بہتری کیلئے مختلف اقدامات اٹھائے گئے،2020ء میں نئی زراعت پالیسی کااعلان کیاگیا،زراعت پالیسی میں کئی شعبوں کو شامل کیاگیا ،ماڈرن ٹیکنالوجی کے تحت اقدامات کئے گئے،قانون میں ترامیم کرکے زراعت کی پالیسی بناکر بہتری کیلئے کام کئے گئے،ماضی میں کسان کو سبسڈی کے نظام میں کئی مشکلات درپیش رہیں ہم نے ایسا نظام متعارف کروایا جس کے
تحت کسان کو تمام شعبوں کی سبسڈی زرعی کارڈ کے ذریعے ٹرانسفر کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ارکان اسمبلی کسانوں کو اپنے دیہی علاقوں میں کسان کارڈ کے لئے آگاہی اور ترغیب دیں،حکومت کسانوں کی سہولت کیلئے ویب سائٹ کا قیام عمل میں لائی ہے تاکہ انہیں جدید ٹیکنالوجی پر معلومات مل سکیں ،کسانوں کی فلاح و بہبود کیلئے اربوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں جس کے
ثمرات آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ مسلم لیگ(ن) کے رکن سردار اویس لغاری نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ حکومتی کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین منتخب نہیں ہوا،حکومت جس کمیٹی کا اجلاس بلاتی ہے اس میں ایک ایک ممبر کو شامل کرکے قانون سازی کی جارہی ہے۔موجودہ حکمران برطاینہ کی مثالیں دیا کرتے تھے ،وزیر اعلیٰ کتنی بار ایوان میں آئے اور اسے عزت بخشی ہے؟۔لوکل گورنمنٹ پر سریم کورٹ کے حکم کے باوجود ڈاکہ مارا گیا،پچاس ہزار نمائندوں کو
ان کے حق سے محروم کیاگیا،ِپبلک ہیلتھ کے حوالے سے تمام سکیمیں بند ہیں،زراعت مسلسل خسارے میں ہے،شوگر کین میں 1960،1970 کی ورائٹی ہیں،حکومت مہنگائی روکنے کی بجائے اضافہ کر رہی ہے،زمینداروں کو گنے کا زیادہ ریٹ طلب اور رسد کا کھیل ہے،پاکستان سالانہ اربوں روپے کا خوردنی تیل درآمد کرتا ہے،حکومت کی نااہلی کے باعث خوردنی تیل کی پیداوار ہی نہیں ہو رہی ہے۔گزشتہ بجٹ میں انفراسٹرکچر کیلئے 26ارب رکھے گئے تھے لیکن انفراسٹرکچر تبادہ ہو کر
رہ گیا ہے ،حکومت نے انفراسٹرکچر کے لئے کوئی کام نہیں کیا گیا۔35 فیصد کسان حکومت کو ٹیکس دے رہا ہے،کسانوں کے لئے زراعت میں بجلی کے بلز ڈبل ہو گئے ہیں،کھادیں 70 سے 80فیصد مہنگی ہوئیں ہیں۔لیگی رکن اسمبلی شیخ علاائولدین نے کہاکہ زرعی ٹیکس پہلے سے موجود ہے اب فصلوںپر پراپرٹی ٹیکس عائدکر دیا گیا،ہمیں کھیتوں پر پراپرٹی ٹیکس کے نوٹس بھجوائے دئیے گئے ہیں۔زراعت پر عام بحث جاری تھی کہ اجلاس کا وقت ختم ہونے پر پینل آف چیئر مین نے اجلاس کل بروز بدھ دوپہر دو بجے تک کے لئے ملتوی کردیا۔