مکوآنہ ( این این آئی ) سال 2030ء تک دنیا بھر میں 50 کروڑ افراد کو کم ازکم ایک ماہ کیلئے شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑے گا،اس 50 کروڑ میں سب زیادہ بھارت کی 27 کروڑ کی آبادی شامل ہے جبکہ پاکستان میں بھی 19 کروڑ افراد گرمی سے متاثر ہوسکتے ہیں۔واشنگٹن پوسٹ اور کاربن پلان کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے وسیع علاقے شدید گرم اور مرطوب موسم میں ڈوب جائیں گے۔2040 تک معمول سے زائد درجہ حرارت پاکستان میں سالانہ ڈیڑھ لاکھ اموات کا سبب بن سکتا ہے۔ویٹ بلب گلوب ٹمپریچر ہوا کے درجہ حرارت، نمی، سورج کی تابکاری اور ہوا کی رفتار کو مدنظر رکھ کر انسانی جسم پر درجہ حرارت کے دباؤ کی جانچ کرتا ہے۔اس پیمائش پر مبنی تجزیہ کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے منسلک بیماریوں اور ان سے اموات کا نیا عالمی مرکز بن چکا ہے۔
آنے والی دہائیوں میں عالمی سطح پر تقریباً 15 ہزار 500 شہروں میں انتہائی شدید گرمی ہوگی۔جزیرہ نما عرب میں 3 کروڑ 40 لاکھ، میکسیکو اور سوڈان میں 10 لاکھ افراد گرمی سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ 2050 تک ایک ماہ ناقابل برداشت گرمی میں مبتلا افراد کی تعداد بڑھ کر ایک اعشاریہ 3 ارب تک پہنچ سکتی ہے۔خطرناک گرمی کی حد 32 ڈگری سیلسیس ویٹ بلب گلوب درجہ حرارت سے زائد ہوسکتی ہے۔یہ شدت خشک دن میں 48 اعشاریہ 8 ڈگری سیلسیس ویٹ بلب کے درجہ حرارت کے برابر ہے اور بہت مرطوب دن میں 35 ڈگری سیلسیس کے درجہ حرارت کے برابر ہے۔اس شدید گرمی میں 15 یا زائد منٹ گزارنا، ایک صحت مند شخص کی صحت پر انتہائی گہرے اور سخت اثرات ڈال سکتا ہے۔
حبس ہمارے جسم کے ٹھنڈا ہونے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے، گرم دنوں میں ہمیں پسینہ آتا ہے، جب پسینہ ہوا میں بخارات کی صورت میں شامل ہوجاتا ہے تو ہمیں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے تاہم جب ہوا میں پہلے سے ہی زیادہ نمی ہو تو پسینہ خشک نہیں ہوپاتا اور یوں ہمارا جسم بھی ٹھنڈا نہیں ہوپاتا۔زیادہ جسمانی درجہ حرارت انسانی جسم کے ٹشوز کو نقصان پہنچاتا ہے، ماہرین کے مطابق یہ صورتحال جان لیوا ہوسکتی ہے۔موسمیاتی تبدیلی جیکب آباد میں درجہ کو مزید بڑھا رہی ہے۔
ہیٹ ویوز کے باعث آخرکار جیکب آباد صحت مند افراد کیلئے بھی ناقابل رہائش ہوجائے گا۔ماہرین کے مطابق گرمی طویل مدتی اور زیادہ شدید ہوتی جا رہی ہے، ساتھ ہی اس میں نمی بھی بڑھ رہی ہے۔اس لیے گرمی سے نمٹنا ہمیں اپنی عادت میں شامل کرنا ہوگا، آپ سائے میں رہیں، ڈھیلے کپڑے پہنیں، اپنے گھر کو ٹھنڈا رکھیں، دن کے گرم ترین حصوں میں ورزش نہ کریں اور خوب پانی پئیں اور سن برن سے بچیں کیونکہ سن برن سے دو ہفتوں تک پسینہ آنے کی صلاحیت ختم ہو سکتی ہے۔