لندن(این این آئی)زولوجیکل سوسائٹی آف لندن اور ڈبلیو ڈبلیو ایف نے کہاہے کہ دنیا بھر میں 1970 کے بعد سے جنگلی حیاتیات کی آبادی میں 58 فیصد کمی ہوئی ہے اگر یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو 2020 تک ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کی تعداد میں دو تہائی کمی واقع ہو جائے گی،میڈیارپورٹس کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف میں سائنس اینڈ پالیسی کے سربراہ ڈاکٹر مائک بیریٹ نے ایک رپورٹ میں کہاکہ اعداد و شمار سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس سے سب سے زیادہ نقصان ان جانوروں کو ہوگا جو جھیلوں، دریاؤں اور نم زمینوں پر رہتے ہیں۔جنگلی حیات میں اس کمی کی بڑی وجوہات میں ماحولیاتی تبدیلی، آلودگی اور جنگلی جانوروں کی تجارت شامل ہیں۔ڈبلیو ڈبلیو ایف میں سائنس اینڈ پالیسی کے سربراہ ڈاکٹر مائک بیریٹ کا کہناتھا کہ یہ کافی حد تک واضح ہے کہ ہم جنگلی حیوانات کی آبادی میں مسلسل کمی دیکھیں گے۔ لیکن میرے خیال میں اب ہم اس نقطہ پر پہنچ چکے ہیں جہاں اس کے لیے کوئی عذر موجود ہو۔انھوں نے کہا کہ ہم اس کی وجوہات سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ انسانوں کے کائنات اور جنگلی حیات پر کس حد تک اثرات ہیں۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم کچھ کریں۔تاہم اس رپورٹ کے طریقہ کار پر تنقید کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں پرندوں، مچھلیوں، ممالیے، خشکی اور تری دونوں پر رہنے والے جانور اور رینگنے والے جانوروں کی جمع کی گئی 3700 مختلف انواع پر تجزیہ کیا گیا ہے۔دی لیونگ پلینٹ نامی یہ رپورٹ ہر دو سال بعد شائع کی جاتی ہے اور اس کا مقصد دنیا میں جنگلی جانوروں کے بارے میں اعداد و شمار مہیا کرنا ہے۔گذشتہ رپورٹ جو کہ 2014 میں شائع کی گئی تھی میں کہا گیا تھا کہ دنیا میں جنگلی جانوروں کی تعداد گذشتہ 40 سالوں میں نصف رہ گئی ہے۔اس کے بعد اس تازہ تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ 1970 کے بعد سے یہ سلسلہ جاری رہا ہے اور اب تک جنگلی حیات کی آبادی میں اوسطً 58 فیصد کمی ہوئی ہے۔ڈاکٹر مائک بیریٹ کا کہنا تھا کہ خاص طور پر تازہ پانیوں میں رہنے والے جانوروں میں زبردست کمی ہوئی ہے۔ صرف تازہ پانیوں میں رہنے والے جانوروں میں کمی 81 فیصد ہے۔اس کے علاوہ دیگر جانوروں جیسے کے افریقی ہاتھیوں کی تعداد میں بھی حالیہ دنوں کے دوران بڑی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کی تعداد میں سالانہ دو فیصد کمی واقع ہورہی ہے اور اگر کچھ نہ کیا گیا تو دہائی کے اختتام تک جنگلی حیات میں 67 فیصد کمی ہونے کا خطرہ ہے۔لیونگ پلینٹ کی اس رپورٹ پر بعض حلقوں کی جانب سے نکتہ چینی بھی کی گئی ہے۔ڈیوک یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر سٹورٹ پم کا کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ میں بعض اعداد و شمار تو منطقی ہیں لیکن کچھ اعداو شمار واضح نہیں ہیں۔