اسلام آباد(نیوز ڈیسک )دنیا کے 20 ممالک میں کیے جانے والے حالیہ سروے کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی میں عالمی ہم آہنگی کے لیے عوامی حمایت میں کمی آئی ہے۔20 میں سے چار ممالک ایسے ہیں جن کے عوام کی اکثریت کی خواہش ہے کہ ان کا ملک ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے پیرس میں 30 نومبر سے 11 دسمبر تک ہونے عالمی کانفرنس میں کوئی اہم اہداف وضع کرے۔سنہ 2009 میں کوپن ہیگن اجلاس سے قبل ہونے والے ایک سروے میں 20 میں سے آٹھ ممالک کی اکثریت کی خواہش تھی کہ ان کا ملک ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے سخت اقدامات کرے۔
یہ نتائج بی بی سی کو تحقیقاتی ادارے گلوبل سکین کی جانب سے موصول ہوئے ہیں۔سنہ 2009 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 63 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک سنگین مسئلہ ہے جبکہ رواں سال ایسا سمجھنے والوں کی تعداد اس سے نصف سے بھی کم رہ گئی ہے۔سروے کے یہ نتائج عالمی سیاسی رہنماو¿ں کے لیے ایک سنجیدہ حقائق ہیں جو اگلے ہفتے اقوامِ متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس ’سی او پی 21 ‘میں شرکت کے لیے پیرس میں جمع ہو رہے ہیں۔اس کانفرنس کو دنیا کے بڑھتے ہوتے درجہ حرارت سے نمٹنے کے لیے ایک بہترین موقع قرار دیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں آخری کانفرنس سنہ 2009 میں کوپن ہیگن میں منعقد ہوئی تھی۔کوپن ہیگن کانفرنس میں عوامی توقعات کے باوجود عالمی رہنما کسی ٹھوس نتیجے پر متفق نہیں ہو سکے تھے۔بی بی سے نے تحقیقاتی ادارے گلوبل سکین سے ماحولیاتی مذاکرات سے متعلق ان کے طویل سروے کے نتائج کے بارے میں معلومات حاصل کی ہیں۔سروے میں 20 ممالک کو شامل کیا گیا تھا، جن میں ہر ملک سے تقریباً 1,000 لوگوں سے ان کی رائے جاننے کے لیے سوالات کیے گئے۔ یہ سروے رواں برس جنوری اور فروری کیا گیا۔
حمایت میں کمی سروے کےمطابق 2009 سے اب تک امیر ممالک میں ماحولیاتی تبدیلی کو ایک سنگین مسئلہ سمجھنے والوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ 20 میں سے صرف تین ممالک میں پیرس کانفرنس میں ٹھوس اقدامات کرنے کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔صرف کینیڈا، فرانس، سپین اور برطانیہ وہ چار ممالک ہیں جہاں کی اکثریت اس بات کی حامی ہے کہ ان کی حکومتیں ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں ایک اہم کردار ادا کریں۔ان ممالک میں 42 فیصد افراد کی خواہش تھی کہ ان کی حکومت ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فوری اہداف مقرر کرنے میں قائدانہ کردار ادا کرے جبکہ باقی 14 فیصد کا خیال تھا کہ ان کی حکومتوں کو اس ضمن میں ایک معتدل رویہ اپنانا چاہیے اور فوری ردعمل کے بجائے بتدریج نتائج کی جانب جانا چاہیے۔گلوبل سکین کے رکن لائنل بیلیئر کے مطابق ’لوگ ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں اتنے فکرمند نہیں ہیں اور جب آپ اس کو پیرس کانفرنس سے عبارت کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کوپن ہیگن کانفرنس سے قبل کیے جانے والے سروے کے مقابلے میں اس مرتبہ عالمی سطح پر ایک حوصلہ مند اور ہم آہنگ معاہدے کے لیے عوامی حمایت میں کمی آئی ہے۔ ‘ان کا مزید کہنا تھا ’ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے عوامی رائے میں یہ تبدیلی اچانک رونما نہیں ہوئی۔‘چین اور انڈونیشیا جیسے ترقی پذیر ممالک میں بھی اس حوالے سے عوامی حمایت میں کمی آئی ہے۔محققین کا خیال ہے کہ عالمی معاشی بحران نے دنیا کے بڑھتے ہوئے درج? حرارت کے بارے میں لوگوں کی رائے کو تبدیل کرنےمیں اہم کردا ادا کیا ہے۔
’اگر ہم ماحولیاتی مسائل کے پس منظر میں دیکھیں تو 2009 سے اب تک تمام ممالک کے رویے میں اس مسئلے کے متعلق تشویش میں کمی آئی ہے اور اس وقت دنیا میں معاشی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔گذشتہ دو سال کے دوران دہشت گردی کے مسئلے نے ہر مسئلے پر فوقیت حاصل کر لی ہے۔گلوبل گرین گروتھ انسٹیٹیوٹ کے ساتھ کام کرنے والے اور اقوامِ متحدہ کے سابق ایگزیکٹو سیکریٹری ڈی بوئر اس سروے کے نتائج پر رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کو ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر سنہ 2009 کے مقابلے میں عوامی سنجیدگی میں کمی آنے پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’یہ بالکل سچ ہے کہ کوپن ہیگن کانفرنس کے بعد ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر ٹھوس نتائج دیکھنے لیے ایک وسیع بین الاقوامی حمایت اور جوش پایا جاتا تھا۔‘
ڈی بوئر کے مطابق ’یہ یقیناً بہت مایوسی کی بات ہے کہ کانفرنس عوام کی توقعات پورا نہیں کر سکی اور پھر مالیاتی بحران بھی پیدا ہوگیا، اس لیے میرا خیال ہے کہ لوگوں کو اس دفعہ معاشی مسائل کی زیادہ فکر ہے۔‘
پیرس میں ملاقات کرنے والے رہنماو¿ں کے لیے یہ بات بھی پریشانی کا باعث ہو سکتی ہے کہ دنیا کے امیر اور غریب ممالک میں یہ خیال تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے لیے اقدامات پر بہت سرمایہ خرچ ہوگا جو شاید ملک کی معاشی ترقی پر بھی اثرانداز ہو۔لائنل بیلیئر کا کہنا ہے ’گذشتہ 12 ماہ کے دوران چین کی گرتی ہوئی معاشی صورتِ حال نے لوگوں کی رائے پر اثر انداز ہوئی ہے لیکن لوگ اس بات سے بھی انتہائی پریشان ہیں کہ اگر ہم ماحولیاتی تبدیلی پر سخت اقدامات لیتے ہوئے کاربن کے اخراج کو روکتے ہیں تو ان کی صنعتی ترقی پر اثر پڑے گا۔‘تحقیق کاروں کا خیال ہے کہ عالمی سطح پر لوگ ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں زیادہ آگاہ ہوتے جا رہے ہیں۔تحقیق کاروں کو اس بات کا بھی پتہ چلا کہ جنوری سنہ 2000 کے مقابلےمیں اس وقت زیادہ لوگ دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی سطح سے رونما ہونے والی شدید موسمی تبدیلیوں کی وجہ انسانوں کے غیرمحتاط ہونےکو ٹھہراتے ہیں۔اس سال 30 نومبر سے 11 دسمبر تک پیرس میں جاری رہنے والی اقوامِ متحدہ کی 21 ویں ماحولیاتی کانفرنس سی او پی21 میں دنیا کے 190 سے زائد ممالک شرکت کر رہے ہیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ایک نئے ممکنہ عالمی معاہدے کی تشکیل پر مذاکرات کیے جائیں گے۔ ان مذاکرات میں گرین ہاو¿س گیسوں کے اخراج میں کمی پر بات کی جائے گی تاکہ ملکوں کے غیر محتاط ہونے کی وجہ سے دنیا میں بڑھتے ہوئے درج? جرارت پر قابو پایا جا سکے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے پر عوامی حمایت میںکمی
29
نومبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں