لندن (نیوزڈیسک )پلوٹو کی پر کثیرالزاویہ اشکال دیکھی جاسکتی ہیںامریکی خلائی ادارے ناسا نے خلائی جہاز نیو ہورائزنز نے پلوٹو کے حیران کن برفیلے میدانوں کی مزید تصاویر جاری کی ہیں۔پلوٹو کی وہ سطح جسے سویت سپٹنک سٹلائٹ کے نام سے منصوب کیا گیا ہے، اس سطح پر کثیرالزاویہ اشکال دیکھی جاسکتی ہیں۔20سے تین کلومیٹر چوڑی ان شکلوں کے کنارے سیاہ اور ٹیلے پر مشتمل ہیں۔سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سطح پر یہ ابھار نیچے کے آنے والی تپش کا ثبوت ہوسکتے ہیں۔تاہم ایسا ٹھنڈک اور مادے کے سکڑنے کے نتجہ ہوسکتا ہے۔سائنسدانوں کی ٹیم کا کہنا ہے کہ جب اتک انھیں مزید معلومات حاصل نہیں ہو جاتیں وہ کسی نتیجے پر پہنچنے کی جلدبازی نہیں کر رہے۔نیوہوریزونز کے علم ارضیات، ارضی طبیعات اور تصویر کشی کی ٹیم کے سربراہ جیف مور کا کہنا ہے کہ جب میں نے پہلی بار سپٹنک کے میدان کی تصویر دیکھی تو میں نے فیصلہ کر لیا تھا میں سے آسان سے بیان نہ کرنے والا میدان کہوں گا۔واشنگٹن ڈی سی میں ناسا کے ہیڈکوارٹر میں میڈیا بریفنگ کے دوران مشن ٹیم نے میڈیا بریفنگ کے دوران پلوٹو کے ایک چاند نکس کی تصویر بھی دکھائی۔اس چاند کی واضح تصویر نہیں حاصل ہوسکی کیونکہ اس کا قطر صرف ۴۰ کلومیٹر ہے اور اب محقق اس کی شکل واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔سائنسدان ایلن سٹرن کا کہنا ہے کہ ہمیں توقعات رکھنا چاہییں، آج سے تین ماہ پہلے تک، ہمارے پاس پلوٹو کی اتنی اچھی تصاویر بھی نہیں تھی۔نیو ہوریزون نے پلوٹو پر کاربن مونو آکسائیڈ کی موجودگی کا انکشاف بھی کیا ہے مزید حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق شاید پلوٹو اپنا کرہ ارض کا ۵۰۰ ٹن فی گھنٹہ کے حساب سے کھو رہا ہے۔ سورج کی طرف سے آنے والے چارجڈ ذرات اسے اس سے جدا کر رہے ہیں۔پلوٹو کا حجم چھوٹا ہونے کے باعث اس کی کشش ثقل زمین یا مریخ کے انتہائی کم ہے۔مثال کے طور پر مریخ پر یہ شرح صرف ایک ٹن فی گھنٹہ ہے۔یونیورسٹی آف کولراڈو کے معاون محقق فران باگینل کہتے ہیں اس کا کیا مطلب ہے؟ اگر آپ نظام شمسی کی تاریخ کے مطابق کھونے والا حصے کا اندازہ لگائیں تو یہ تقریبا ایک ہزار سے نو ہزار فٹ بنتا ہے۔ چنانچہ ایک بڑے پہاڑ کے برابر نائٹروجن برف ہٹ چکی ہے۔یہ مقدار اتنی زیادہ نہیں ہے کہ پلوٹو کے تمام کرہ ارض کو ختم کر دے لیکن اس کے اثرات اس کی سطح پر ہوسکتے ہیں جہاں برف بخارات بن رہی ہے۔واضح رہے کہ نیو ہورائزنز 14 جولائی کو گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق صبح 11:50 پر اس سیارے کے قریب ترین پہنچا تھا اور اس کا پلوٹو سے فاصلہ صرف 12,500 کلومیٹر تھا۔
پلوٹو کے قریب سے 14 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گزرتے ہوئے نیو ہورائزنز نے سیارے کی تفصیلی تصاویر کھینچیں اور اس کے بارے میں دیگر سائنسی معلومات اکٹھی کیں۔نیو ہورائزنز کا 2370 کلومیٹر چوڑے پلوٹو کے قریب سے گزرنا خلا کو جاننے کی تاریخ کا انتہائی اہم لمحہ ہے۔اس کامیابی کے نتیجے میں عطارد سے لے کر پلوٹو تک نظامِ شمسی کے تمام نو کلاسیکی سیاروں تک کم از کم ایک خلائی سفر کا عمل مکمل ہو گیا ہے
پلوٹو کے برفیلے میدانوں کی نئی تصاویر جاری
20
جولائی 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں