لندن (نیوز ڈیسک )سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ اگر کسی شخص کو جینیاتی طور پر مخاطب کیا جائے، تو یہ کہا جائے گا کہ آپ بالکل اپنے والد جیسے ہیں۔ایک نئی تحقیق کا نتیجہ بتاتا ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ کی آنکھیں بالکل اپنی ماں جیسی ہیں لیکن، جینیاتی حوالے سے آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ آپ اپنے باپ کی طرف سے ملنے والی وراثتی جین کا استعمال زیادہ کرتے ہیں۔چوہوں پر کی جانے والی تحقیق کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وارثت میں ماں سے ملنے والی جین کے مقابلے میں باپ کی جین اولاد پر زیادہ غالب ہوتی ہے اور یہ نتیجہ انسانوں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔مطالعے کے مطابق ہم انسانوں کو موروثی طور پر ایک جین کی نقل ماں سے اور ایک باپ سے ملتی ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنے والدین کی طرف سے ’ڈی این اے‘ کی برابر کاپیاں ملتی ہیں لیکن، یہ ضروری نہیں ہے کہ ماں اور پاب سے ملنے والی جین یکساں طور پر ہماری نشو و نما کے لیے فعال بھی ہے۔محققین نے کہا کہ انسانوں کی ہزاروں صدیوں کی جین میں والدین کے مخصوص اثرات ظاہر ہوتے ہیں اور اگر ترازو کے توازن کی بات کی جائے تو اس میں باپ کا پلڑا بھاری ہے یعنی اولاد بالغ ہونے پر کیسی ہو گی اس بات کا تعین باپ کی طرف سے ملنے والی جین کے اظہار سے ہوتا ہے جو ماں کے مقابلے میں نمایاں طور پر غالب ہے۔محققین نے کہا کہ جنیاتی طور پر چوہا انسان سے بہت قریب ہے اسی وجہ سے ہماری جین کے سیٹ چوہوں سے بہت زیادہ ملتے جلتے ہیں۔ڈی این اے پر کی جانے والی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ زندہ انسان ایک مکمل اور پیچیدہ ترتیب و ترکیب کا مرکب ہے۔ اس کی جینز میں انسانوں کی مکمل معلومات محفوظ ہوتی ہیں اور ڈی این اے میں چھپے ہوئے اربوں کیمیائی حروف کو جاننے سے انسانوں کی معلومات کے بارے میں اندازا ہوتا ہے۔ مثلاً اس کے آباو¿ و اجداد کہاں سے آئے ہیں؟ اس کی نسل، طبعی خدوخال، رنگت اور ذہنی استعداد وغیرہ کی مکمل تفصیلات اسی ڈی این اے میں موجود ہوتی ہے۔ڈی این اے ایک طویل سالمہ ہے لیکن یہ ڈور کی طرح گتھم گھتا ہوتا ہے جبکہ ڈی این اے خاص قسم کی لحمیات ہیسٹون پر دھاگے کی طرح لپٹا ہوتا ہے اور یہ لحمیات ہی ہیں جو جین کے اظہار اور عدام اظہار کا موجب بنتی ہیں۔لیبارٹری کے چوہوں پر کی جانے والی تحقیق میں یونیورسٹی آف کیرولینا اسکول آف میڈیسن کے تجزیہ کاروں نے 9 اقسام کے چوہوں میں بالغ ہونے پر جین کے اظہار کا تجزیہ کیا ہے۔محققین نے مطالعے میں جسمانی ٹشوز کی 4 اقسام میں جین کے اظہار کی سطح ناپی اور دیکھا ہےکہ جینیوم میں ہر ایک جین کے لیے ماں اور باپ کی طرف سے کتنا اظہار ہے۔تحقیق کے مصنف پرادو کی مینوئل نے کہا کہ ممالیہ بشمول انسانوں میں مردوں کی طرف سے ملنے والے جینیاتی مواد کو کثرت سے استعمال کرنے کا امکان ہے۔نتیجے سے ظاہر ہوا کہ چوہوں کی جین میں ماں کے مقابلے میں 60 فیصد والد سے نقل ہونے والی جین کی کاپی زیادہ متحرک تھی اور اس عدم توازن کے نتیجے میں چوہوں کےبچوں کا دماغ جینیاتی طور اپنے باپ جیسا تھا۔پروفیسر پرادو کی مینوئل کے مطابق اگرخرابی والی جین ماں کی طرف سے ملی ہے تویہ باپ کی جین کے مقابلے میں زیادہ فعال نہیں ہو گی لیکن باپ کی طرف سے ملنے والی خراب جین کے نتائج مختلف ہو سکتے ہیں۔اسی طرح ایک ہی جیسی خرابی والی جین کا موروثی بیماریوں پربھی مختلف نتیجہ ہوگا۔یہ تحقیق ‘نیچر جینیٹیک ‘ میں شائع ہوئی ہے جس میں سائنسدانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ نتائج سے جین کے اظہار کی وجہ سے ہونے والی موروثی بیماریوں کےبارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔محققین کے مطابق ابتدائی طورپر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ والدین میں سے کسی ایک کی طرف سے ملنے والی 95 جینز موروثی طور پر ہم پر غالب ہوتی ہیں لیکن نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ایسی جینز کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور ان میں باپ سے ملنے والی جین کا تناسب زیادہ ہے۔پرفیسر پرادو کی مینوئل نے کہا کہ یہ ایک غیر معمولی تحقیق ہے جس سے انسانی جینیات میں تحقیق کے لیے نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں