آسٹریا (نیوز ڈیسک ) تین معذور افراد کو بائیونک ہاتھ لگا دیے گئے ہیں۔ یہ عام ہاتھ کی طرح دماغ سے کنٹرول ہوتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ان افراد کی ٹانگوں سے لیے گئے اعصاب اور پٹھے ان کے بازﺅں میں پیوند کیے گئے ہیں۔ یہ پہلے ایسے افراد ہیں، جو اس خاص طریقہ علاج سے گزرے ہیں، جسے ڈاکٹر ’بائیونک ری کنسٹرکشن‘ کا نام دیتے ہیں۔ اس طریقہ کار میں نقص کے شکار ہاتھوں کو رضاکارانہ طور پر الگ کرنا، اعصاب اور پٹھوں کی پیوند کاری اور پھر دماغ کے ذریعے ان ہاتھوں کو حرکت دینے کی تربیت کا عمل شامل ہے۔ ویانا کی میڈیکل یونیورسٹی کے ڈاکٹر آسکر آزمن (Oskar Aszmann) نے یہ طریقہ کار اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر ترتیب دیا ہے۔ ڈاکٹر آزمن کا خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”یہ پہلا موقع ہے کہ ہم نے ذہن کی طاقت سے استعمال ہونے والا ہاتھ مریضوں کو لگایا ہے۔“ ان کا مزید کہنا تھا، ”اگر پانچ یا سات برس قبل میں ایسے مریضوں کو دیکھتا تو کندھے اچکا کر یہی کہہ دیتا کہ میں آپ کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا۔“ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے ہاتھ کی پیوند کاری کی صورت میں چند مسائل کاسامنا بھی رہتا ہے مثلا ایسے لوگوں کو پھر زندگی بھر ایسی ادویات کھانا پڑتی ہیں، جو جسم کی جانب سے پیوند شدہ ہاتھ کو ریجیکٹ یا مسترد کر دیے جانے سے بچاتی ہیں۔ ڈاکٹر آزمن اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے اس نئے طبی طریقہ? کار کے بارے میں رپورٹ تحقیقی جریدے ’لینسٹ‘ میں بدھ 25 فروری کو شائع ہوئی ہے۔ جن لوگوں کو یہ بائیونک ہاتھ لگائے گئے ہیں، ان میں 30 سالہ میلارڈ مارینکووِچ (Milorad Marinkovic) بھی شامل ہیں۔ ان کا دایاں ہاتھ 10 برس قبل موٹر سائیکل کے ایک حادثے میں ضائع ہو گیا تھا تاہم بائیونک ہاتھ لگنے سے وہ اب مختلف چیزوں مثلاً سینڈوچ اور پانی کی بوتل وغیرہ کو پکڑ سکتے ہیں۔ ویانا کے رہائشی ماریکووِچ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ”میں چیزیں دور پھینک بھی سکتا ہوں مگر کسی گیند کو کیچ کرنا ابھی ذرا مشکل ہے کیونکہ میرا دایاں ہاتھ اس حد تک قدرتی انداز میں اور فوری عمل نہیں کرتا، جیسا کہ میرا بایاں ہاتھ کرتا ہے۔“ وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے بائیونک ہاتھ سے تقریباً ساری ہی چیزیں کر سکتے ہیں مگر فرق صرف یہ ہے کہ اس ہاتھ سے وہ چیزوں کو محسوس نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر آزمن کے اندازوں کے مطابق ایک بائیونک ہاتھ کی پیوند کاری پر قریب 30 ہزار یورو کا خرچ آتا ہے۔ اب تک جن افراد کو یہ تجرباتی ہاتھ لگائے گئے ہیں، ان کے لیے اخراجات مختلف اداروں کی طرف سے فراہم کیے گئے تھے۔ ان اداروں میں آسٹرین کونسل فار ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی ڈیویلپمنٹ بھی شامل ہے
معذور افراد کے لیے خو شخبری بائیونک ہینڈز

ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
-
حکمت کی واپسی
-
آپریشن سندور میں ذلت آمیز شکست کے بعد مودی سرکار اور بھارتی فوج آمنے سامنے
-
ڈیم میں ڈوبنے والی 2 خواتین کو زندہ نکالنے والے نوجوان کیلئے نوکری اور نقد ...
-
شیفالی کی موت کیسے ہوئی؟ اداکارہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں وجہ سامنے آگئی
-
اپنا میٹر اپنی ریڈنگ ایپ کیسے استعمال کریں، صارفین کو کیا فائدہ حاصل ہوگا؟
-
ندا یاسر کے گھر غیرملکی ملازمہ کی چوری کی چونکادینے والی واردات
-
ربیکا خان کے حق مہر نے بڑا تنازعہ کھڑا کردیا
-
حکومت کا بجلی کے گھریلو صارفین کو ایک اور ریلیف دینے کا فیصلہ
-
ایئرانڈیا حادثہ اور 274 مسافروں کی ہلاکت بھارتی ایوی ایشن نظام کی بدترین ناکامی قرار
-
فیس بک کی دوستی محبت میں تبدیل، امریکی خاتون نوجوان سے شادی کیلئے پاکستان پہنچ ...
-
کسٹمز نے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما کی ویگو گاڑی ضبط کرلی
-
میں عمر کیوں چھپائوں؟ میں جو ہوں، مجھے ایسا ہی قبول کیا جانا چاہیے،ماہرہ خان
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
-
حکمت کی واپسی
-
آپریشن سندور میں ذلت آمیز شکست کے بعد مودی سرکار اور بھارتی فوج آمنے سامنے
-
ڈیم میں ڈوبنے والی 2 خواتین کو زندہ نکالنے والے نوجوان کیلئے نوکری اور نقد انعام کا اعلان
-
شیفالی کی موت کیسے ہوئی؟ اداکارہ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں وجہ سامنے آگئی
-
اپنا میٹر اپنی ریڈنگ ایپ کیسے استعمال کریں، صارفین کو کیا فائدہ حاصل ہوگا؟
-
ندا یاسر کے گھر غیرملکی ملازمہ کی چوری کی چونکادینے والی واردات
-
ربیکا خان کے حق مہر نے بڑا تنازعہ کھڑا کردیا
-
حکومت کا بجلی کے گھریلو صارفین کو ایک اور ریلیف دینے کا فیصلہ
-
ایئرانڈیا حادثہ اور 274 مسافروں کی ہلاکت بھارتی ایوی ایشن نظام کی بدترین ناکامی قرار
-
فیس بک کی دوستی محبت میں تبدیل، امریکی خاتون نوجوان سے شادی کیلئے پاکستان پہنچ گئی
-
کسٹمز نے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما کی ویگو گاڑی ضبط کرلی
-
میں عمر کیوں چھپائوں؟ میں جو ہوں، مجھے ایسا ہی قبول کیا جانا چاہیے،ماہرہ خان
-
معروف کمپنی نے موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا
-
تنہائی سالانہ 8 لاکھ سے زائد اموات کا سبب بن رہی ہے’ عالمی ادارہ صحت