اسلام آباد (این این آئی)پاکستان کو فروری کے مہینے میں ایندھن کی ترسیل میں شدید بحرانی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ ملک کے تیزی سے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر کے پیش نظر بینکوں نے درآمدات کے لیے ادائیگیاں بند کردی ہیں۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ملک کو ادائیگیوں میں توازن کے بحران کا سامنا ہے اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کے سبب درآمدی اشیا کی
قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کا سب سے بڑا اثر توانائی کے شعبے پر پڑا ہے کیونکہ زیادہ تر ایندھن بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا ہے۔پاکستان سالانہ بنیادوں پر اپنی توانائی کی ایک تہائی ضروریات کو برآمدی قدرتی گیس کے ذریعے پورا کرتا ہے جس کی قیمتوں میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے انتہائی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔آئل کی کمپنیوں میں سے ایک کے سینئر عہدیدار نے بتایا کہ آئندہ 15 دن میں کسی قسم کی قلت نہیں ہو گی البتہ اگر ہم نے ابھی فوراً ایل سیز(لیٹر آف کریڈٹ) نہ کھولیں تو اگلے 15 دن میں قلت کا سامنا کر سکتے ہیں۔لیٹر آف کریڈٹ دراصل تیل کی تجارت میں درآمد کنندگان کے بینکوں کی جانب سے برآمد کنندگان کو کی جانے والی ادائیگیوں کا معیاری طریقہ کار ہے البتہ زرمبادلہ ذخائر کی کمی کے سبب تیل کے تاجر پاکستان اور سری لنکا جیسے ممالک کو مسلسل نظرانداز کررہے ہیں، پاکستان نے حال ہی میں اتوار کو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 16فیصد کا اضافہ کیا تھا اور تاخیر کا شکار آئی ایم ایف کے نویں جائزے کی بحالی کے لیے عالمی ادارے سے مذاکرات کررہا ہے۔سرکاری ریفائنری پاکستان اسٹیٹ آئل اور پاکستان ایل این جی لمیٹیڈ نے گزشتہ چند ماہ کے دوران ایندھن کی متعدد ٹینڈرز کسی کو بھی ایوارڈ نہیں کیے۔ڈائریکٹر جنرل عمران احمد کی جانب سے 19 جنوری کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ ایندھن کے امپورٹرز کو
درپیش مالی مسائل کے حوالے سے انڈسٹری کے اجلاس کے دوران اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایک عہدیدار نے ایل سیز کھولنے میں تاخیر کی وجہ سے ملک کو درپیش لیکویڈیٹی کے سنگین مسائل کی نشاندہی کی.خطک ے مطابق اسی اجلاس میں پاکستان اسٹیٹ آئل کے منیجنگ ڈائریکٹر نے کہا کہ پیٹرول کارگو کی 13 جنوری کو لوڈنگ ہونا تھی تاہم ایل سیز نہ کھلنے کے سبب اسے منسوخ کردیا گیا ہے،
انہوںنے کہاکہ ملک میں محدود اسٹاک ہے اور اس صورتحال میں شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے۔اس سے قبل ریفائرنری، پائل پائپ لائن اور مارکیٹنگ کمپنیوں کی نمائندگی کرنے والی آئل کمپنیوں کی مشاورتی کونسل نے بھی کہا تھا کہ ایل سیز کھلنے میں تاخیر کے سبب ملک میں ایندھن کی قلت ہو سکتی ہے۔وزارت خزانہ کو 13 جنوری کو لکھے گئے خط میں آئل کمپنیوں کی مشاورتی کونسل نے کہا تھا کہ
پاکستان کو ہر ماہ 4لاکھ 30ہزار ٹن پیٹرول، دو لاکھ ٹن ڈیزل اور ساڑھے چھ لاکھ ٹن کھانے کا تیل درآمد کرنے کی ضرورت ہے اور مقامی طور پر اس مانگ کو پورا کرنے کے لیے 1.3ارب ڈالر کی رقم درکار ہوتی ہے۔اسی وجہ سے پاکستان نے گزشتہ سال درآمد کیے گئے 6لاکھ 8ہزار ٹن کے مقابلے میں
اس سال دسمبر میں 2لاکھ 23ہزار ٹن پیٹرول درآمد کیا، اس سال جنوری میں 2لاکھ 70ہزار ٹن ایندھن درآمد کیے جانے کا امکان ہے جہاں اس کے مقابلے میں گزشتہ سال اسی ماہ کے دوران 3لاکھ 93ہزار ٹن ایندھن منگوایا گیا تھا۔کچھ بینکوں نے ایل سیز کھولنے میں تاخیر کی اطلاعات کو مسترد کردیا ہے
البتہ اسٹیت بینک آف پاکستان نے اس حوالے سے رائٹرز کی جانب سے کی گئی ای میل کا جواب نہیں دیا۔گزشتہ ہفتے اس حوالے سے پاکستان اسٹیٹ آئل نے کہا کہ تھا کہ وہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی مسلسل ترسیل کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور ملک میں مصنوعات کا وافر اسٹاک موجود ہے۔