صحیح احادیث میں ایک عجیب اور پرلطف واقعہ بیان ہوا ہے، اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رحیم و کریم رب اپنے بندوں پر ان کی ماؤں سے زیادہ شفیق اور مہربان ہے، یہ واقعہ پڑھئے اور رب تعالیٰ کی تحمید و تسبیح بیان کیجئے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:جنت میں سب سے اخیر میں داخل ہونے والا شخص اس طرح داخل ہو گا کہ کبھی وہ چلتا ہو گا، کبھی گھٹنوں کے بل گھسٹتا ہو گا اور آگ کی لپیٹ اس تک پہنچ رہی ہو گی۔ جب وہ اس سے آگے بڑھ جائے گا تو اس کی طرف متوجہ ہو کر کہے گا کہ وہ ذات بڑی بابرکت ہے جس نے مجھ کو تجھ سے نجات دی، یقیناً اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ چیزعطا کی جو اولین و آخرین میں سے کسی اور کو اس نے نہیں دی۔ پھر اس شخص کے لیے ایک درخت نمودار ہو گا، وہ کہے گا ‘‘اے رب! مجھ کو اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس سے سایہ حاصل کروں اور اس کا پانی پیوں۔‘‘اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ’’اے ابن آدم! اگر میں تم کو یہ چیز عطا کر دوں تو شاید تم مجھ سے اور سوال کر بیٹھو۔‘‘وہ کہے گا کہ ’’نہیں اے رب!‘‘ اور اللہ تعالیٰ سے عہد و پیمان کرے گا کہ اس کے علاوہ کسی اور چیز کا سوال نہیں کرے گا اور اس کا رب اس کی درخواست قبول کر لے گا اور اس کو اس درخت کے قریب کردے گا۔ حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اس
بندہ کو اس پر صبر نہیں آئے گا۔ وہ شخص اس سے سایہ حاصل کرے گا، پانی پئے گا، پھر اس کے لیے پہلے سے عمدہ ایک اور درخت ظاہر ہوگا، وہ کہے گا کہ ’’اے رب! مجھ کو اس سے قریب کر دے تاکہ میں اس کا پانی پیوں اور اس سے سایہ حاصل کروں، اس کے علاوہ تجھ سے
سوال نہیں کروں گا۔‘‘اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ’’اے ابن آدم! کیا تو نے مجھ سے عہد نہیں کیا تھا کہ اور کچھ نہیں مانگو گے، اگر میں تم کو اس کے قریب کر دوں تو شاید تم اور سوال کرو گے؟‘‘بندہ عہد کرے گا کہ ’’نہیں اور کچھ نہیں مانگوں گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ اس کو اس کے قریب کر دیں گے
، وہ اس سے سایہ حاصل کرے گا، پانی پئے گا، پھر جنت کے دروازہ کے پاس پہلے دو درختوں سے عمدہ درخت وہ دیکھے گا تو کہے گا ’’اے رب! مجھے اس سے قریب کر دے تاکہ میں اس سے سایہ حاصل کروں اور اس کا پانی پیوں، اس کے علاوہ تجھ سے سوال نہیں کروں گا۔‘‘
اللہ تعالی فرمائیں گے کہ ’’اے ابن آدم! کیا تجھ نے مجھ سے عہد نہیں کیا تھا کہ اس کے علاوہ اور کچھ سوال نہیں کرو گے؟‘‘وہ کہے گا کہ ’’ہاں یا رب! لیکن اس کے بعد اب اور مطالبہ نہیں کروں گا۔‘‘اس کا رب اس کی درخواست کو قبول کرے گا اور اس کو اس سے قریب کر دے گا
لیکن وہ جانتا ہے کہ اس کو اس پر بھی صبر نہیں ہوگا، جب وہ شخص اس درخت سے قریب ہو گا تو اہل جنت کی آوازیں سنے گا، پھر کہے گا، اے میرے رب! مجھے اس میں داخل کر دیجئے!‘‘اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ’’اے ابن آدم! آخر کب تمہارا سوال ختم ہو گا؟ کیا اگر ساری دنیا اور جو
کچھ اس میں ہے تمہیں عطا کر دوں تو تم خوش ہو جاؤ گے؟‘‘’’بندہ کہے گا، اے میرے رب! کیا آپ مجھ سے مذاق کرتے ہیں، حالانکہ آپ رب العالمین ہیں؟‘‘ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ ’’کیا تم مجھ سے نہیں پوچھتے کہ میں کیوں ہنسا؟‘‘ لوگوں نے پوچھا ’’آپ کیوں
ہنس رہے ہیں؟‘‘فرمایا: اسی طرح رسول اللہؐ بھی ہنستے تھے۔ لوگوں نے سوال کیا ’’یا رسول اللہؐ ! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟‘‘فرمایا ’’رب العالمین کی ہنسی کی وجہ سے، بندے کے اس قول پر کہ ’’کیا آپ مجھ سے مذاق کر رہے ہیں، حالانکہ آپ رب العالمین ہیں؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ نہیں، میں تم سے مذاق نہیں کر رہا، لیکن میں جو چاہتا ہوں اس کے کرنے پر قادر ہوں۔‘‘