اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)1999 کے واقعات کے بعد جب نواز شریف صاحب کو باہر بھجوا دیا گیا تو وہاں جدہ میں بھی وہ خود کو وزیر اعظم ہی کہلوانا اور سنسنا پسند کرتے تھے۔سینئر کالم نگار ئوف کلاسرا اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ جدہ کے سرور پیلس میں ان کے
ملٹری سیکرٹری انہیں تب بھی مسٹر وزیر اعظم کہہ کر بلاتے تھے۔ نواز شریف صاحب وہ لفظ سننا چاہتے تھے‘ جن سے وہ آشنا تھے۔ وہ برسوں تک اس حقیقت کو تسلیم نہ کر سکے کہ وہ ملک کے وزیر اعظم نہیں رہے‘ لیکن ان کے ارد گرد موجود لوگ انہیں یہی احساس دلاتے تھے۔ بینظیر بھٹو بھی اسی رومانس کا شکار تھیں۔نصرت بھٹو کا وہ جملہ سب کو آج بھی یاد ہو گا کہ بھٹوز حکمرانی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ حکمرانی کا تصور پورے بھٹو خاندان کو ختم کر گیا‘ لیکن حکمرانی کا راستہ پھر بھی ترک نہ کیا گیا۔ اپنے جیسے انسانوں پر حکم چلانے کا نشہ اتنا خوفناک ہے کہ بندہ پھانسی لگ جاتا ہے‘ جلا وطنی کا دکھ سہہ لیتا ہے اور ایک ہیرو کی زندگی ترک کر کے اپنے لیے مسلسل عذاب خرید لیتا ہے۔ وہ زندگی جس میں اگر ایک کروڑ بندہ آپ کے لیے زندہ باد کے نعرے لگاتا ہے تو ایک کروڑ مردہ باد بھی بولتا ہے۔ آپ دن رات اپنے دشمن کے بارے میں سوچتے ہیں‘ یہ کہ آپ اسے کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں اور کیسے اپنی برتری ثابت کر سکتے ہیں۔ دوسروں سے ممتاز اور نرالا ہونے کا یہ شوق جہاں انسانوں کو تخت پر بٹھاتا ہے‘ وہیں یہ تختے پر بھی لے جاتا ہے۔