وزیراعظم کے سامنے بے باک باتیں‎ ندیم افضل چن نے اپنی نوکری خطرے میں ڈال دی‎

21  اکتوبر‬‮  2020

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر صحافی رئوف کلاسرا نےنجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کے دوران کہا ہے کہ ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے ندیم افضل چن سے کہا کہ یہ باتیں جلسوں کیلئے ہوتی ہیں ، کیبنٹ میٹنگ میں ایسی باتیں نہیں کی جاتیں ۔ صحافی کا کہنا تھا کہ سننے میں یہ آیا ہے انہوں نے بہت اونچی آواز میں بات کی تھی ۔ وہاں پر شہزاد اکبر نے جواب دینے کی کوشش کی

تو عمران خان نےانہیں روک دیا جبکہ ندیم افضل چن کا کہنا تھا کہ یہ اگر بولیں گے تو میں پھر جواب دوں گا ۔رئوف کلاسرا کا کہنا تھا کہ ندیم افضل چن نے یہ باتیں وزیراعظم کے منہ پر بول کر اپنی نوکری خطرے میں ڈال لی ہےکیونکہ وزیراعظم کا اپنا ہی وزیر ان کے منہ پر جب یہ کہے گا کہ شوگر کمیشن فراڈ ہے جبکہ عمران خان ہر جگہ کہتے ہیں کہ ہمارا ایک بڑا کارنامہ ہے ۔ میرے خیال میں ندیم افضل چن نے یہ باتیں وزیراعظم عمران خان کے منہ پر بول کر اپنی نوکری کو خطرے میں ڈال لیا ہے ۔ دوسری جانب معروف روزنامہ نوائے وقت میں شائع صحافی محمد اکرم چودھری نے اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ ندیم افضل چن نے احتساب و داخلہ کے مشیر شہزاد اکبر سے کہا کہ آپ نے اچھی انکوائری کی ہے چینی سستی ہونے کی بجائے مہنگی ہوگئی، اگر انکوائری کے بعد چینی سستی نہیں ہونی تھی تو پھر لوگوں کو ٹارگٹ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ دلیر اور بہادر سیاسی کارکن ندیم افضل چن نے کہا کہ چینی اور گندم سستی ہو سکتی ہے۔ متعلقہ حکام میرے ساتھ بیٹھ جائیں۔ دیکھتا ہوں کہ گندم اور چینی کیسے سستی نہیں ہوتی۔ ان بیانات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ مصنوعی ہے یا خود ساختہ یا پھر یہ حقیقی ہے۔ ہر صورت اس کی ذمہ داری متعلقہ وزراء اور وزیراعظم عمران خان کی ٹیم پر عائد ہوتی ہے۔ ندیم افضل چن نے ہمارے لکھے گئے درجنوں کالموں کی تائید کی ہے ہم ملک و قوم کے وسیع مفاد اور عام آدمی کی مشکلات کے پیش نظر مہینوں سے کہہ رہے کہ

اگر کسی کو سمجھ نہیں آ رہی کہ مارکیٹ کا رجحان کیا ہے، مارکیٹ کو قابو کیسے کرنا ہے مارکیٹ کے مسائل کیا ہیں تو تشریف لائیں سمجھائے دیتے ہیں کوئی قدم تو اٹھائے، عوام کی مشکلات کا ارادہ تو کرے لیکن کسی کو اثر نہیں ہوا نتیجہ یہ ہے سبزیوں نے سینچریوں سے کم پر ملنا بند کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے ان دنوں وزیراعظم عمران خان کے انتہائی قریب دو ایسے غیر سیاسی و غیر عوامی افراد موجود ہیں

جن کا نہ عوام سے کوئی تعلق ہے، نہ ان کا عام آدمی کے مسائل سے کوئی تعلق ہے، نہ ان کا کوئی بڑا کاروبار ہے لیکن ان کے مشوروں سے لگتا ہے کہ نہ انہوں نے کسی کا کاروبار رہنے دینا ہے نہ انہوں نے کوئی عام آدمی کو سکون سے رہنے دینا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے تمام تر خامیوں اور غلط مشوروں کے باوجود وزیراعظم ان پر بہت اعتماد کرتے ہیں۔ جہانگیر ترین کے کیس اور ندیم افضل چن کے ان بیانات کے بعد

بھی اگر حقائق سامنے نہیں آتے تو مہنگائی پر قابو پانا ممکن نہیں ہو گا۔ باخبر دوست بتاتے ہیں کہ کابینہ کے اجلاس میں بہت سنجیدہ گفتگو ہوئی۔ وزراء نے اشیاء خوردونوش کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں پر تحفظات کا اظہار کیا اور وزیراعظم عمران خان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ گندم وافر مقدار میں موجود ہے تو آٹے کی قیمتوں میں کمی کیوں نہیں ہو رہی۔ وزیراعظم عمران خان کے

اس سوال کے بعد یقیناً وزراء نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ذمہ دار کو ڈھونڈ نکالنے کا وعدہ کیا ہو گا یہ نعرہ لگاتے ہوئے اجلاس سے نکلے ہوں گے کہ سب پھڑے جان گے، سب پھڑے جان گے۔ بہرحال ندیم افضل چن نے ایک حقیقی سیاسی کارکن ہونے کا حق ادا کیا ہے انہوں نے واضح الفاظ میں وزیراعظم کے سامنے گذشتہ ڈیڑھ برس میں کھیلے جانے والے کھیل کو بے نقاب کیا ہے۔ وہ اس دلیرانہ موقف پر

مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مہنگائی پر صرف تشویش کا اظہار کرنے والی کابینہ کو دیکھنا چاہیے کہ انہوں نے خود مہنگائی کو قابو میں کرنے کے لیے کتنا کام کیا ہے، بدقسمتی سے کسی کے پاس کچھ نہیں ہے تبھی تو آج عام آدمی کو پوچھنے والا کوئی نہیں اس کے لیے دال اور آلو خریدنا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اب حکومت نے بچت بازاروں میں عوام کو خوار کرنے کا منصوبہ بنایا ہے کئی مہینوں سے مہنگائی سے

بدحال عوام کو اب بچت بازاروں کے نام پر لوٹا جائے گا حکومت بھی تیار رہے کیونکہ انہی بچت بازاروں میں میڈیا ہر وقت بدانتظامی رپورٹ کرے گا، حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عوام کو ریلیف بھی نہیں ملے گا اور حکومت کی ساکھ مزید خراب ہو گی کیونکہ میڈیا کو تو غلطیوں کا انتظار ہے اور اسے لوگوں کے روتے پیٹتے مہنگائی پر چیختے ہر حال میں دکھانا ہے اس طریقے سے

حکومت خرچہ بھی کرے گی اور بدنامی بھی مول لے گی لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے ان بچت بازاروں سے کئی لوگ بازار جانے کے قابل ہو جائیں گے بلکہ کئی اہم افراد کے کئی گھر بھی بن جائیں گے۔ عوام کو آلو کھلاتے کھلاتے وہ کس حد تک اپنے لیے چپس کی فیکٹریاں بنا لیں گے۔ عام آدمی کو ان بازاروں سے کچھ بچے یا نہ بچے لیکن یہ طے ہے وہ اہم افراد جن کی رسائی ہے اس منصوبے سے بہت کچھ بچا لیں گے اور شاید یہ سارا منصوبہ بھی کچھ نا کچھ بچانے کے لیے ہی ڈیزائن کیا گیا ہے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…