اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر کالم نگار رئوف کلاسرا اپنے کالم ’’ذوالفقار علی بھٹو‘ نواز شریف‘ عمران خان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔ یہی کچھ ہم نے نواز شریف کے ساتھ ہوتے دیکھا ۔ بھٹو کے بعد اگر کوئی طاقتور وزیراعظم تھا تو وہ نواز شریف تھے‘ جنہیں پنجاب سے
ہونے کی وجہ سے سول ملٹری بیوروکریسی سے بہت تعاون ملا۔ وہ ہر دفعہ پنجاب سے جیت کر ہی تین دفعہ وزیراعظم بن گئے‘ لیکن پھر بھی وہ جمہوریت کو مضبوط نہ کرسکے۔ ان کی ساری توجہ دو کاموں پر رہی کہ ہر جگہ اپنا بندہ ہونا چاہیے چاہے۔ سب صحافی اور سب ججز بھی ہماری جیب میں ہوں اور دوسرا‘ صرف ان کے خاندانی کاروبار کو فائدہ ہونا چاہیے‘ ملکی اکانومی چاہے نیچے جارہی ہو لیکن ان کے خاندان کا پرافٹ اربوں میں ہونا چاہیے۔نواز شریف نے ہر جنرل کو آرمی چیف بنانے سے پہلے خفیہ ملاقاتیں کیں‘شجرہ نسب دیکھااور ذاتی وفاداری کے حلف لیے۔ پرویز مشرف سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اپنا کشمیری جنرل خواجہ ضیاالدین بٹ لانے کا فیصلہ کیا ۔ نواز شریف وزیراعظم بنے تو جمہوری طریقے سے تھے لیکن اب وہ ’’امیرالمومنین‘‘ بننا چاہتے تھے۔