موٹر وے پر دل دہلادینے والاواقعہ پیش آیا ،حکومت کی ہمدردیاں قوم کی بیٹی کے بجائے اپنے چہیتے پولیس افسر کے ساتھ ہیں،دھاندلی کے ذمہ داروں کو حساب دینا ہو گا، نواز شریف کھل کر بول پڑے

20  ستمبر‬‮  2020

اسلام آباد (این این آئی) سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن)کے قائد میاں نوازشریف نے واضح کیاہے کہ سلیکٹڈ حکومت اور نظام سے نجات حاصل کر نا اولین ترجیح ہے ،قوم کے حالات کی وجہ نا اہل حکمرانوں کو مسلط کر نے والے ہیں ،فیصلے آج نہیں کرینگے تو کب کرینگے ،ہمیں رسمی اور روایتی طریقوں سے ہٹ کر کانفرنس کو با مقصد بنانا ہوگا ورنہ قوم کو مایوسی ہو

گی ،یہاں یا تو مارشل لا ہوتا ہے یا پھر منتخب جمہوری حکومت سے کہیں زیادہ طاقت ور متوازی حکومت قائم ہوجاتی ہے اور ایک متوازی نظام چلتا ہے،عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم نہ کرنے اور نتیجتاً متوازی حکومت کا مرض ہی ہماری مشکلات اور مسائل کی اصل جڑ ہے،2018 کے انتخابات کے بعد متعدد ملکی اور غیر ملی اداروں کی طرف سے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھائے گئے،انتخابات ہائی جیک کرکے انتخابات چند لوگوں کو منتقل کردینا بہت بڑی بددیانتی اور آئین شکنی ہے،آر ٹی ایس گھنٹوں کیوں بند رکھا گیا، گنتی کے دوران پولنگ ایجنٹس کو کیوں باہر نکال دیا گیا، انتخابات میں دھاندلی کیوں اور کس کے کہنے پر کس کیلئے کی گئی اور کونسی مفادات کیلئے کی گئی، اس پر سابق چیف الیکشن کمشنر اور سیکریٹری الیکشن کمشنر سمیت جو لوگ بھی دھاندلی کے ذمہ دار ہیں سب کو حساب دینا ہوگا،یاد رکھیں پاکستان میں اگر ووٹ کو عزت نہ ملی اور قانون کی حکمرانی نہ آئی تو یہ ملک معاشی طور پر مفلوج ہی رہے گا، موٹر وے پر دل دہلادینے والاواقعہ پیش آیا ،حکومت کی ہمدردیاں قومی کی بیٹی کے بجائے اپنے چہیتے پولیس افسر کے ساتھ ہیں،بھارت نے غیرنمائندہ، غیرمقبول اور کٹھ پتلی پاکستانی حکومت دیکھ کر کشمیر کو اپنا حصہ بنا لیا اور ہم احتجاج بھی نہیں کرسکے، دنیا تو کیا ہم اپنے دوستوں کی حمایت بھی حاصل نہ کرسکے،ملک میں خارجہ پالیسی بچوں کا کھیل بنا دیا گیا ہے،

سی پیک کے ساتھ پشاور بی آر ٹی جیسا سلوک ہورہا، جہاں کئی سال گزر گئے، منصوبے سے کئی گنا زیادہ رقم خرچ ہوچکی مگر نتیجہ آج بھی آنکھوں سے اوجھل ہے،نیب اندھے حکومتی اقدامات کا آلہ کار بن چکا ہے، ایک آمر کے بنائے ہوئے ادارہ کو قائم رکھنا ہماری غلطی تھی، آئین پر عمل کرنے والے کٹہروں میں کھڑے ہیں ،کیا کچھ لوگ اس دہرے معیار کی وجہ سے کسی جرم کے بغیر

سزائیں پاتے رہیں گے اور کچھ سب کچھ کر کے بھی بے گناہی اور معصومیت کے سرٹیفکیٹ حاصل کرتے رہیں گے ،قوم کب تک دیکھنے اور جاننے کے باوجود خاموشی سے یہ سب کچھ سہتی رہے گی،ریاستی طاقت سے میڈیا کی زبان بندی کہاں کا انصاف ہے؟۔ اتوار کو آل پارٹیز کانفرنس سے ویڈیو لنگ کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نوازشریف نے چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول

بھٹو زر داری ، سابق صدر آصف علی زر داری ،جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ، اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف سمیت آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ اللہ تعالیٰ آصف علی زر داری کو صحت اور تندرسستی اور خیر و برکت عطا فرمائے ۔ انہوںنے کہاکہ بلاول بھٹو زر داری سے پرسوں بات کر کے بہت خوشی ہوئی ہے اور بہت اچھی اچھی باتیں ہوئیں اور

جس پیار محبت سے انہوںنے مجھ سے بات کی میں کبھی نہیں بھلائونگا ۔ انہوںنے کہاکہ کانفرنس کے میزبان آصف علی زر داری ، بلاول بھٹو زر داری اور مولانا فضل الرحمن اور تمام قائدین کا بے حد شکر گزار ہوں کہ مجھے کانفرنس میں اپنی بات کہنے کا موقع فراہم کیا ۔سابق وزیراعظم نے کہاکہ میں و طن سے دور ہوتے بھی اچھی طرح جانتا ہوں کہ وطن عزیز کن حالات سے گزر رہا ہے اور

عوام کن مشکلات کا شکار ہیں یہ کانفرنس نہایت اہم موقع پر منعقد ہورہی ہے بلکہ میں تو اسے ایک فیصلہ کن موڑ سمجھتا ہوں ، پاکستان کی خوشحالی اور صحیح معنوںمیں ایک جمہوری ریاست بنانے کیلئے ضروری ہے کہ ہم ہر طرح کی مصلحت چھوڑ کر اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں اور بے باک فیصلے کریں اور آج نہیںکرینگے تو کب کرینگے انہوں نے کہاکہ مولانا فضل الرحمن کی سوچ سے پوری

طرح متفق ہوں اور رسمی اور روایتی طریقوں سے ہٹ کر اس کانفرنس کو با مقصد بنانا ہوگا ورنہ قوم کو بہت مایوسی ہوگی اور جو ابھی ٹرینڈ آصف علی زر داری نے سیٹ کیا ہے اسی کو بھی آگے لیکر چلناہے ،آپ سب جانتے ہیں کہ 73برس سے پاکستان کو کن مسائل کا سامنا ہے ۔نوازشریف نے کہاکہ ان مسائل کی بنیادی وجہ صرف اور صرف ایک ہے اور میں اپنے تجربے سے کہہ رہا

ہوں ،میرا تجربہ بھی پاکستانی سیاست اور پاکستان کی خدمت میں کافی زیادہ ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو جمہوری نظام سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے ،جمہوریت کی روح عوام کی رائے ہوتی ہے یعنی ملک کا انتظام وہ لوگ چلائیں جنہیں عوام اپنے ووٹوں کی اکثریت سے یہ حق دیں اور ہمارے آئین کی ابتداء بھی انہی الفاظ سے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا حاکم مطلق ہے جس کا کوئی

شریک نہیں اس کے طے کر دہ حدود کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کے عوام کی طرف سے استعمال کیاجانے والا اختیار ایک مقدس امانت کا درجہ رکھتا ہے آئین کے مطابق ہمارے جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے پر ہے دنیا بھر کی جمہورتیوں کا یہی اصول ہے جب جمہوریت کی اس بنیاد پر ضرب لگتی ہے اور ووٹ کی عزت کو پامال کر دیا جاتا ہے تو سارا جمہوری عمل بالکل بے معنی

اور جعلی ہو کر رہ جاتا ہے ۔ نہوںنے کہاکہ جب عوام کی مقدس امانت میں خیانت کی جاتی ہے او رانتخابی عمل سے پہلے یہ طے کر دیا جاتا ہے کہ کس کو جتانا ہے اور کس کو ہروانا ہے انتخابات میں دھاندلی سے مطلوبہ نتائج حاصل کر لئے جاتے ہیں اور رہی سہی کسر حکومت سازی کیلئے جوڑ توڑ میں نکال دی جاتی ہے تو اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کس کس طرح سے عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے

اور عوامی مینڈیٹ کیسے چوری کیا جاتا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ بد قسمتی سے پاکستان کو اس طرح کے تجربات کی لیبارٹی بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔انہوںنے کہاکہ اگر کبھی عوام کی کوئی نمائندہ حکومت بن بھی گئی تو ہر طرح کی سازش کے ذریعے سے پہلے بے اثر اور پھر فارغ کر دیا جاتا ہے اس میں یہ بھی پرواہ نہیں کی جاتی ہے کہ اس سے ریاستی ڈھانچہ کمزور ہوگا ۔انہوںنے کہاکہ اقوام عالم

میں جگ ہنسائی ہوگی اور عوام کا ریاستی اداروں پرسے اعتماداٹھ جائیگا یہ بات پاکستان کے بچے بچے کی زبان پر ہے کہ 73سالہ تاریخ میں ایک بار بھی کسی منتخب وزیر اعظم کو اپنی پانچ سالہ کی آئینی مدت پوری نہیں کر نے دی گئی ہر ڈکٹیٹر نے اوسطاً نو سال غیر آئینی طورپر حکومت کی جبکہ عوام کے ووٹوں سے منتخب وزرائے اعظم کو اوسطاً دو سال سے زیادہ کا عرصہ شاید ہی ملا

ہو ۔انہوںنے کہاکہ جرنیلوں کی مہم جوئی کو روکنے کیلئے 1973کے آئین میں آر ٹیکل چھ ڈالا گیا لیکن اس کے بعد بھی بیس سال جرنیلی آمریت کے نذر ہوگئے ۔انہوںنے کہاکہ جب ایک ڈکٹیٹر کو آئین شکنی کے جرم میں پہلی بار عدالت کے کٹہرے میں لایاگیا تو آپ نے دیکھا کیا ہوا ؟مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ جس طرح ہر مارشل لاء کو عدالتوں نے جائز قرار دیا ڈکٹیٹر کو آئین سے

کھلواڑ کر نے کا اختیار دیا ، تین تین سالوں کیلئے دیا ،اسی طرح دو بار آئین توڑنے والے کو بریت کا سرٹیفکیٹ بھی عدالتوںنے ہی دیا اسے ایک دن تو کیا ایک گھنٹے کیلئے بھی جیل میں نہ ڈالا جاسکا پوری داستان ہے جو کسی دن سنائونگا کہ کہاں سے کہاں لے گئے۔انہوںنے کہاکہ آئین پر عمل کر نے والے ابھی تک کٹہروں میں کھڑے ہیں اور جیلوں میں پڑے ہیں ہماری تاریخ پر تقریباً33سال کا

عرصہ فوجی آمریت کی نذر ہوگیا یہاں صرف ایک ڈکٹیٹر پر مقدمہ چلا ، خصوصی عدالت بنی ، کارروائی ہوئی ،اسے آئین اور قانون کے تحت سزا سنائی گئی لیکن کیا ہوا میںپوچھنا چاہتا ہوں کیا ہوا ؟کیا مجرم گرفت میں آگیا ،کیا سزا ملی ؟یہ سب تو دور کی بات ہوا تو یہ کہ عدالت ہی سرے سے غیر آئینی قراردے دی گئی یہاں یہ کوئی انہونی بات نہیں یعنی پاکستان میں یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ

کسی ڈکٹیٹر کے بڑے سے بڑے جرم پر بھی کوئی کارروائی نہ ہو اور اگر ہو بھی جائے تو کوئی اسے چھو بھی نہ سکے اور اگر کوئی فیصلہ آ بھی جائے تو صرف سزا ہی نہیں عدالت کو بھی ہوا میں اڑا دیا جائے لیکن آخر کب تک ؟ ۔ انہوںنے کہاکہ اس کے برعکس ان سیاستدانوں کو دیکھئے جو عوام کے ووٹوں سے وزیر اعظم بنے کوئی قتل ہوگیا ، کوئی پھانسی چڑھ گیا ،کوئی ہائی جیکر بن گیا ،

چور اور غدار قرار دے دیا گیا ،کسی کو جلا وطن کر دیا گیا اور کوئی عمر بھر کیلئے نا اہل ہوگیا ان کے گناہ اور سزائیں ختم ہونے میں آہی نہیں رہیں وہ جھوٹے مقدمات میں اپنی مائوں ، اپنی بہنوں ، اپنی بیٹیوں کے ساتھ پیشیاں بھگت رہے ہیں ۔دراصل یہ سلوک پاکستان کے عوام کے ساتھ کیا جارہا ہے اورسزا بھی پاکستان کے عوام کو ہی مل رہی ہے ۔انہوںنے شرکاء سے مخاطب ہو کر کہاکہ آپ

جانتے ہیں عوام کی حمایت سے کوئی جمہوری حکومت بن جائے تو کس طرح اس کے ہاتھ پائوں باندھ دیئے جاتے ہیں اور کس طرح عوامی نمائندوں کی تذلیل ہوتی ہے ۔انہوںنے کہاکہ کس طرح کر دار کشی کا ایک منظم سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کس طرح قومی مفاد کے خلاف کسی سرگرمی کی نشاندہی کر نے پر انہیں ملک دشمن اور غدار قرار دے دیا جاتا ہے خلاصہ یہ ہے کہ یہاں یا تو  مارشل

لاء ہوتا ہے یا منتخب جمہوری حکومت سے کہیں زیادہ طاقت ور یعنی متوازن حکومت قائم ہو جاتی ہے اور متوازی نظام چلتا ہے غالباً ایک بار سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے جسے برداشت نہیں کیا جاستا، تاہم دکھ کی بات یہ ہے کہ اب معاملہ ریاست کے اوپر ریاست تک جاپہنچا ہے۔ انہوں نے کہاکہ عوام کے حق حکمرانی کو تسلیم نہ کرنے

اور نتیجتاً متوازی حکومت کا مرض ہی ہماری مشکلات اور مسائل کی اصل جڑ ہے ۔انہوںنے کہاکہ یہی وجہ ہے کہ عالمی برداری نے ہماری ساخ ختم ہو کر رہ گئی ہے 2018ء کے انتخابات کے بعد متعدد ملکی و غیر ملکی اداروں کی طرف سے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھائے گئے ،میں تو جیل میں تھا لیکن خبریں مجھے سب ملتی رہیں بعض نے ان سیٹوں کی تعداد بھی بتائی جہاں دھاندلی

کی وجہ سے نتائج تبدیل کر دیئے گئے ان حلقوں کی اتنی تعداد ہے کہ اگر ان میں دھاندلی کے ذریعے نتائج تبدیل نہ کئے جاتے تو بے ساکھیوں پر کھڑی یہ حکومت کبھی بھی وجود میں نہیں آسکتی ہے آج قوم جن حالات سے دو چار ہے ان کی بنیادی وجہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عوام کی رائے کے خلاف نا اہل حکمرانوں کو ملک پر مسلط کیا ۔ انہوں نے کہاکہ انتخابات ہائی جیک کر کے اقتدار چند

لوگوں کو منتقل کر دینا بہت بڑی بد یانتی اور آئین شکنی ہے ہم چند روپوں کی خاطر ڈاکہ ڈالنے والوں کیلئے بڑی سے بڑی سزا کا تقاضا کرتے ہیں لیکن عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا کتنا سنگین جرم ہے کیا کسی نے سوچا ہے ؟انہوںنے کہاکہ کیا میں یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ 2018ء کے انتخابات میں گھنٹوں آر ٹی ایس کیوں بند رکھا گیا ؟گنتی کے دور ان پولنگ ایجنٹس کو کیوں نکال

باہر کیا گیا ؟ انتخابات میں دھاندلی کیونکر کی گئی کس کے کہنے پر کی گئی کس کیلئے کی گئی اور کون سے مفادات کیلئے کی گئی ؟ اس میں سابق چیف الیکشن کمشنر اور سیکرٹری الیکشن کمیشن کو بھی جواب دینا ہوگا اور جو لوگ بھی دھاندلی کے ذمہ دار ہیں ان سب کو حساب دینا ہوگا ۔ سابق وزیر اعظم نے کہاکہ اس نا اہل حکومت نے دو سالوں میں پاکستان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے

اس کا کوئی اندازہ کر سکتا ہے پاکستان کی معیشت بالکل تباہ ہوچکی ہے یا جو کہتے ہیں کہ معیشت تباہ ہورہی ہے نہیں بات اس سے بہت آگے چلی گئی ہے ۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کی معیشت بالکل تباہ ہو چکی ہے ،5.8فیصد شرح کی ترقی سے آگے بڑھتا ہوا پاکستان آج صفر سے بھی آگے جا چکا ہے، پاکستانی روپیہ بھارت اور بنگلہ دیش ہی نہیں افغانستان اور نیپال سے بھی زیادہ نیچے گر چکا

ہے جس مہنگائی پر ہم نے مکمل قابو پالیا ہے وہ آج کئی گنا بڑھ چکی ہے غریب اور متوسط گھرانوں کیلئے دو وقت کی روٹی بھی محال ہو چکی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ بجلی اور گیس کے بل عام آدمی پر بل بن کر گرتے ہیں آپ کبھی اندازہ کیجئے پچھلے دو سالوں میں ڈیڑھ کروڑ لوگ غربت کی سطح سے نیچے جا چکے ہیں اور ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسہ دینے والے ایک کروڑ بیس لاکھ

لوگوں کا روز گار چھین چکے ہیں اس نالائق حکومت نے ہر معاملے پر یوٹرن لیا ہے آج سرمایہ کاری بالکل ختم ہو چکی ہے سی پیک سب کنفیوژن کا شکار ہے قرضے ختم کر دینے کا دعویٰ کر نے والوں نے دو سالوں میں قرضوں میں اتنا اضافہ کر دیا ہے کہ پچھلے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں اور اس کے باوجود کوئی ایک ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا وہ پاکستان جس کے بارے

میں بین الاقوامی ادارے یہ پیشگوئی کررہے تھے اگلے چند سال میں یہ دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں یعنی جی 20میں شامل ہو جائیگا آج معاشی طورپر مفلوج ہو کر رہ گیا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ اگر پاکستان میں ووٹ کو عزت نہ ملی اور قانون کی حکمرانی نہ آئی تو یہ ملک معاشی طورپر مفلوج ہی رہے گا اور کھلے الفاظ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ایسے ممالک اپنے دفاع کے قابل بھی نہیں

رہتے ۔انہوںنے کہاکہ خاص طورپر اس وقت جب آپ کے دشمن آپ کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا رہے ہوں ۔ انہوںنے کہاکہ ملک بد امنی ، افراد تفری اور جرائم کا گڑھ بن چکا ہے آئے دن ایسی پریشان کن خبریں آتی رہتی ہیں شیخوپورہ سیالکوٹ روڈ پر قوم کی بیٹی کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ دل دہلا دیتا ہے اس سانحہ کے بعد مزید تکلیف کاباعث اس سنگدل پولیس افسر کا ہے جو بنیادی

انسانی اقدار سے بھی محروم ہے اس کا بڑی المیہ یہ ہے کہ حکومت کی تمام تر ہمدردیاں قوم کی بیٹی کی بجائے اپنے چہیتے پولیس افسر کے ساتھ ہے ۔انہوںنے کہاکہ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جغرافیہ اعتبار سے بھی انتہائی اہم ہے پاکستان کی خارجہ پالیسی بنانے کا اختیار عوامی نمائندوں کے پاس ہونا چاہیے ہماری خارجہ پالیسی عوامی امنگوں اور ملکی مفادات سے ہر گز

متصادم نہیں ہونی چاہیے ،کھربوں روپے کے نقصان اور ہزاروں جانیں قربان کر نے کے باوجود ہم کبھی فیٹف او ر کبھی کسی اور کٹہرے میں کھڑے شرمناک صفائیاں پیش کررہے ہوتے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ جب کشمیر کا نام زبان پر آتا ہے تو 73سال سے دی جانے والی قربانیاں آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہے اور کشمیری عوام پر کئے جانے والے مظالم کا سلسلہ کئی سالوں سے جارہی ہے مگر

کشمیر کو ہڑپ کر نے کا حوصلہ آج تک کسی کا نہیں ہوا اب بھارت نے ایک غیر نمائندہ اور غیر مقبول اور کٹھ پتلی پاکستانی حکومت دیکھ کر کشمیر کو اپنا حصہ بنالیا ہے اور ہم احتجاج بھی نہ کر سکے دنیا تو کیا اپنے دوستوں کی حمایت بھی حاصل نہ کر سکے آخر ایسا کیوں ہے کیوں ہوا ایسے ؟ کیوں ہم عالمی تنہائی کا شکار ہوگئے ہیں کیوں آج ہماری بات دنیا سننے کیلئے تیار نہیں ہے ، ہمارے

دیرینہ اور شانہ بشانہ کھڑے ہونے والے ساتھی ممالک کیو ں ہم سے دور ہوگئے شاہ محمود قریشی نے کس منصوبے کے تحت وہ بیانات دیئے جس سے ہمارے بہترین دوست سعودی عرب کی دل شکنی ہوئی ۔سابق وزیر اعظم نے کہاکہ پاکستان کو اپنے دوست ممالک کی دل آزاری سے احتراز کر نا چاہیے او آئی سی ایک اہم ادارہ ہے جس کی افادیت طے شدہ ہے پاکستان او آئی سی کے

بانی ممالک میں شمار ہوتا ہے پاکستان کو دیگر ممالک کے ساتھ ملکر او آئی سی کو مضبوط کر نا چاہیے ہمیں سوچنا چاہیے کیوں ہمارے انتہائی قریبی ممالک بھی ہم پر اعتماد کر نا چھوڑ گئے ہیں یہ لمحہ فکریہ ہے اس پر ضرور غور ہو ناچاہیے لیکن اس طرح کی حکومت ہوگی تو پھر یہی کچھ ہوگا آپ کی خارجہ پالیسی کوبچوں کا کھیل بنا کر رکھ دگیا ہے اب وقت آگیا ہے کہ ان تمام سوالوں

کے جواب لئے جائیں اگر اس کانفرنس میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے دو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف موجود ہیں وہ اچھی طرح جاتنے ہیں سول حکومت کے گرد کس طرح کے شکنجے کس دیئے جاتے ہیں اور کس طرح کی ایسی کارروائیاں ہو جاتی ہیں جن وزیراعظم کو علم بھی نہیں ہوتا ۔انہوںنے کہاکہ نہ وزیر اعظم اور نہ صدر کو علم ہوتا ہے ان کارروائیوں

کی بھاری قیمت ریاست کو ادا کر نا پڑتی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ چار سال پہلے اکتوبر 2016ء میں قومی سلامتی کے امورپر بحث کے دور ان جب توجہ دلائی گئی کہ ہمارے دوستوں سمیت دنیا بھر کے ممالک کو ہم سے شکایت ہے اور ہمیں اپنا احتساب خود کرتے ہوئے ایسے اقدامات کر نے چاہئیں کہ دنیا ہماری طرف انگلیاں نہ اٹھائے تو اسے ڈان لیکس بنا دیا گیا ،ایجنسیوں کے اہلکاروں پر مشتمل

جے آئی ٹی بنی ، ثبوت تو کسی کے خلاف کچھ نہ تھا لیکن پروپیگنڈا مشینوں کے ہاتھوں ہمیں اور مجھے بھی غدار اور ملک دشمن ٹھہرا دیا گیا ، وزیر اعظم کے احکامات کو ایک ماتحت ادارے کے اہلکار کی طرف سے کی گئی ٹوئٹ میں ریجکٹیٹ یعنی مسترد کا ٹائٹل عطا کر دیا گیا ۔انہوںنے کہاکہ اس وقت اگر یہ بات مان لی جاتی تو ملک بہت سی قباحتوں اور مشکلات سے بچ جاتا ۔ انہوں نے کہا کہ

انہوں نے کہاکہ سی پیک کو ناکام بنانے کا سلسلہ 2014ء میں اس وقت شروع ہوا جب دھرنوں کے ذریعے چین کے صدر کا دورہ ملتوی کروا دیا گیا چین ہمارا مخلص دوست ہے جو پاکستان کے ساتھ ہر موقع پر شانہ بشانہ کھڑا رہا پاکستان اور چین کے تعلقات مزید مستحکم کر نے اور سی پیک کے حوالے سے صدر شی جن پنگ کا کر دار قابل تعریف ہے ،سی پیک کا یہ عظیم منصوبہ حکومت کی

اس نا اہلی کی نذر ہورہا ہے جو زندگی کے ہر ہر شعبے میں نظر آرہی ہے ۔ سابق وزیر اعظم نے کہاکہ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا سی پیک کے ساتھ بی آر ٹی جیسا سلوک ہورہا ہے جہاں کئی سال بیت گئے منصوبے سے کئی گنا زیادہ رقم غرق ہو گئی مگر نتیجہ آج بھی نظروں سے اوجھل ہے آئے دن کبھی دور ان سفر بسوں میں آگ لگ جاتی ہے اور کبھی بارش ناقص تعمیر کا پول

کھول کر رکھ دیتی ہے یہاں نیب کے کر دار کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے سچی بات تو یہ ہے کہ ایک ڈکٹیٹر کے بنائے ہوئے اس ادارے کو برقرار رکھنا ہماری غلطی تھی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ ادارہ اس حد تک گر سکتا ہے یہ ادارہ نہیں بلکہ اندھے حکومتی انتقام کا آلہ کار بن چکا ہے اس کے کئی سینئر اہلکاروں کے گھنائونے کر دار فا ش ہو چکے ہیں

اس ادارہ کا چیئر مین جاوید اقبال اپنے عہدے اور اختیارات کا انتہائی نازیبا اور مذموم استعمال کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے مگر نہ تو کوئی انکوائری ہوتی ہے نہ ایکشن لیا جاتا ہے اور نہ ہی شفافیت کے دعویدار عمران خان پر کوئی جوں رینگتی ہے ، انہوںنے کہاکہ اس کے باوجود یہ شخص ڈھٹائی سے اپنے عہدے پر براجمان ، انتقام کے ایجنڈے پر دھڑلے سے عمل کرتا ہے لیکن بہت جلد

انشاء اللہ ان سب کا یوم حساب آئیگا ۔بین الاقوامی ادارے اور ہماری اعلیٰ عدالتیں نیب کے منفی کر دار پر بڑی واضح رائے دے چکی ہیں یہ ادارہ انتہائی بد بودار ہو چکا ہے اور مکمل طورپر اپنا جواز کھو چکا ہے ،جو نیب سے بچتا ہے اسے ایف آئی اے کے سپرد کر دیا جاتا ہے جو ایف آئی اے سے بچے وہ اینٹی نارٹکس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور جو وہاں سے بچے اسے کسی بھی جھوٹے مقدمے

میں پکڑ لیا جاتا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ2018ء میں سینٹ کے انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے ایک مذموم سازش کی گئی ۔انہوںنے کہاکہ اس مذموم سازش کے ذریعے بلوچستان کی صوبائی حکومت گرادی گئی اس کامقصد کیا تھا ؟اس کا اصل مقصد سینٹ کے انتخابات میں سامنے آیا ۔ سابق وزیر اعظم نے کہاکہ جنرل عاصم سلیم کے خاندان کی بے پنا ہ دولت اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اثاثوں کی تفصیلات

پوری قوم کے سامنے آ چکی ہیں ،پندرہ بیس سال کے عرصہ میں اربوں روپے کے اثاثے کہاں سے بن گئے ؟یہ پوچھنے کی کسی کی مجال نہیں ، میڈیا پر خاموشی چھا گئی ،نہ نیب حرکت میں آئی نہ کسی عدالت نے نوٹس لیا نہ کوئی جے آئی ٹی بنی نہ کوئی ریفرنس دائرہوا نہ کوئی مانیٹرنگ جج بیٹھا ، نہ کوئی پیشی ہوئی نہ کوئی سزا ۔انہوںنے کہاکہ احتساب کا نعرہ لگانے او ر این آر او نہ

دینے کے دعوے کر نے والا عمران خان نے بھی اثاثوں کے ذرائع پوچھنے کی جرات تک نہ کی بلکہ ایک پل میں انہیں ایماندار ی کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا۔ انہوںنے کہاکہ میڈیا پر پہلی بار اس سکینڈل کا ذکر اس وقت ہوا جب جنرل عاصم باجوہ تردید کیلئے خود ٹی وی پر آئے ۔ انہوںنے کہاکہ اس حکومت کے دو سالوں کیلئے یہ کوئی پہلا مالی بد عنوانی کاسکینڈل نہیں یہاں کئی انتہائی سنگین

سکینڈل سامنے آچکے ہیں جن کا نقصان براہ راست غریب عوام کو پہنچا حکومت اوربیٹھے لوگ باقاعدہ پلاننگ سے آٹے ، چینی اور دوائیوں کی قیمتیں آسمان پر لے گئیں ۔ انہوںنے کہاکہ جب ہم چھوڑ کر گئے تھے تو چینی پچاس روپے کلو تھی آج سو روپے تک جا پہنچی ہے اور آٹے کی قیمتیں بھی دیکھ لیں دوائیوں کی قیمتیں آسمان تک پہنچ گئی ہیں عوام کے کھربوں روپے لوٹ لئے گئے ۔ انہوں نے

کہاکہ ملک کا حکمران اگرچہ دن رات کرپشن مافیاز اور این آر او کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے لیکن چینی کی قیمت بڑھانے میں خود اس کی ذات ملوث ہے ۔ انہوںنے کہاکہ کیا نیب اسے تحقیقات کیلئے گرفتار نہیں کریگا ؟ کیا اس پر کوئی ر یفرنس دائر انہیں ہوگا علیمہ خان صاحبہ کوئی جدی پشتی رئیس نہیں بس خیراتی اداروں کی فنڈ ریزنگ کرتی رہتی ہیں ان کے بیرون ملک اثاثوں کے ذرائع کی نیب کبھی

کوئی چھین بین نہیں کریگا؟منی گالا میں عمران خان کے ذاتی گھر اور غیر قانونی تعمیر کی فائل یونہی بند رہے گی ،فارن فنڈنگ کیس جن میں بے شمار مالی بے ضابطگیاں ہیں اور کرپشن ہے جن کی گواہی خود پی ٹی آئی کے رہنما دے رہے ہیں اتنے سال گزر جانے کے باوجود کیا الیکشن کمیشن ان پر کوئی فیصلہ نہیں کریگی یہ جاندار سوالات ہیں جن کا کوئی جواب سامنے نہیں آئے گا کیا ان لوگوں

پر فوجداری مقدمہ قائم نہیں ہوگا ؟کیابنی گالا میں زمین کی خرید کی منی ٹریل پر کوئی جے آئی ٹی نہیں بنے گی ،یہ اتنی بڑی جائیداد کہاں سے بنی اور کیسے بنی ؟اس میں بہت کرپشن اور شکوک و شبہات ہیں ۔انہوںنے کہاکہ گزشتہ روز اسمبلی اراکین کے گوشواروں کی تفصیلات سامنے آئیں عمران خان اربوں روپے کی جائیداد رکھتے ہوئے بھی دو لاکھ 83ہزار روپے کا ٹیکس دیا ہے سوال یہ ہے کہ

جب آمدنی اتنی قلیل ہے تو لاہور کے زمان پارک کے گھر پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے کہاں سے آئے ؟کیا نیب ان آمدن سے زیادہ اثاثوں پر کوئی ایکشن نہیں لے گا؟۔ انہوںنے کہاکہ احتساب کے اداروں کو اپوزیشن کے سواکسی کے اثاثے نظر نہیں آتے اور نہ ہی کسی کی آمدنی کے ذرائع ۔ ریاست مدینہ تو بہت بلند و برترمثال ہے قانون و انصاف کا ادنیٰ سا معیار رکھنے والی ریاست

میں بھی ایسا نہیں ہوتا ۔ انہوںنے کہاکہ کیا کچھ لوگ اس دہرے معیار کی وجہ سے کسی جرم کے بغیر سزائیں پاتے رہیں گے اور کچھ سب کچھ کر کے بھی بے گناہی اور معصومیت کے سرٹیفکیٹ حاصل کرتے رہیں گے قوم کب تک دیکھنے اور جاننے کے باوجود خاموشی سے یہ سب کچھ سہتی رہے گی ۔نوازشریف نے کہاکہ کیا ہم ایسا پاکستان اپنی آنے والی نسلوں کے لئے چھوڑنا چاہتے ہیں؟

ہر گز نہیں نہیں ۔انہوںنے کہاکہ میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے ،اظہار کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ایک ہے افسوس کہ دیگر حقوق کی طرح پاکستانی عوام سے یہ حق بھی چھین لیا گیا ، ایک طرف مجھے سیاسی جماعتوں کا بلیک آئوٹ نظر آتا ہے اور دوسری طرف غیر سیاسی اور غیر جمہوری عناصر کا بے روک ٹوک پرپیگنڈا ، کہیں مجھے چینلوں کی غیر قانونی بندش

نظر آتی ہے تو کہیں اخبارات و جرائد کی مخصوص علاقوں میں تقسیم پر پابندیاں ۔ نوازشریف نے کہاکہ ریاستی طاقت سے میڈیا کی زبان بندی کہاں کا انصاف ہے صحافیوں کے بالخصوص خواتین صحافیوں کو سر کاری ایجنسیوں کا اٹھا کر لے جانا اور تشدد کا نشانہ بنانا بزدلانہ اور انتہائی قابل مذمت ہے ۔انہوںنے کہاکہ سینئر صحافیوں کو چینلوں یا اخبارات کی ملازمت سے بر خاست کروا دینا،

بے بنیاد مقدمات میں الجھا دینا اور قید میں ڈال دینا کیا ایک جمہوری ریاست کا طریقہ ہے ؟۔ انہوںنے کہاکہ میں اس کانفرنس کے شرکاء سے درخواست کرتا ہوں کہ سب ملکر یہ عہد کریں کہ ہم میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی حفاظت کرینگے اور اس کی آزادی پر کوئی قدغن قبول نہیں کرینگے ۔انہوںنے کہاکہ جمہوریت کو کمزور کر نے اور اپنا مخصوص ایجنڈا نافذ کر نے کیلئے تقسیم کرو یعنی لڑو

اور حکومت کرو کی پالیسی معمول بن چکی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کچھ عرصہ پہلے تک یہ تقسیم سیاستدانوں تک محدود تھی جنہیں مخصوص حلقوں کی طرف سے بلایا ، ڈرایا اور دھمکایا جاتا تھا ۔انہوںنے کہاکہ یہ طریقہ سیاسی جماعتیں توڑنے اور فاروڈ بلاک بنانے یا پھر مرضی کی پارٹیاں بنانے کیلئے استعمال ہوتا رہا آج بھی ہوتا ہے۔ نواز شریف نے کہاکہ آج ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم ایک ہیں

اور قومی مفاد کی خاطر تقسیم ہونے سے انکار کرتے ہیں ،۔ سابق وزیر اعظم نے کہاکہ اگر ہم ایسا کر نے میں کامیاب ہو گئے تو یہ کانفرنس ہماری تاریخ کا بڑا سنگ میل بن سکتی ہے ۔انہوںنے کہاکہ اب یہ Divide And Ruleکا یہ ہتھیار ،وکلاء ، دانشوروں ، تاجروں ، صنعت کاروں اور میڈیا کیلئے استعمال ہورہا ہے بلکہ اس کا ہدف عدلیہ بھی ہے جو جج انصاف اور قانون کی راہ پر

چلتا ہے اور دبائو میں آنے سے انکار کر تا ہے اسے عہدے سے ہٹانے کی سازشیں شروع کر دی جاتی ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے کہاکہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ، یہ دونوں جج صاحبان دیانتداری ، سچائی اور امانتداری کی شہرت کے حامل ہیں ،آج تک کسی فورم نے یہ تحقیق ضروری نہیں سمجھی کہ شوکت عزیز صدیقی نے جو

کچھ حلفاً کہا اس کا بھی تو جائزہ لیا جائے ، با ضمیر ججوں کے ساتھ یہاں ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے ، یہاں انصاف پسند اور امانتدار نہیں بلکہ ایسے منصف تلاش کئے جاتے ہیں جو ان کے ہر جائز و ناجائز مطالبات تسلیم کریں ۔سابق وزیر اعظم نے کہاکہ ان کے جبر و استبداد اور بلیک میلنگ کے آگے سر تسلیم خم کریں ، انہوںنے کہاکہ نظریہ ضرورت بتائیں اور پروان چڑھائیں ، آئین کو سبوتاژ

کر نے والے ڈکٹیٹروں کے اقدامات کو قانون کاجامہ عطا کریں ۔ انہوں نے کہاکہ آرٹیکل چھ جیسے سنگین جرم کے ملزم کو آئین میں ترمیم کا اختیار عطا کریں اور عوام کے منتخب وزرائے اعظم کو پھانسی دیں جیلوں میں ڈالیں ، جلا وطن اور ذلیل ورسوا کریں ۔سابق وزیر اعظم نے کہاکہ اس کانفرنس کو آئین کی حکمرانی اور ووٹ کی عزت کے تحفظ کیلئے ایک جامع لائحہ عمل تجویز کرنا چاہیے

اگر میثاق جمہوریت کی بنیاد پر کسی نئے میثاق کی تشکیل ضروری ہو تو اس پر غو کیا جانا چاہیے ۔انہوںنے کہاکہ متوازی حکومت کے بنیادی مسئلے کوحل کر نے کیلئے ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے ، عوام کیرائے پر اپنی رائے مسلط کر نے کا نتیجہ سقوط ڈھاکہ کی شکل میں سامنے آیا تھا لیکن اس عظیم سانحے کو بھی بڑی سرد مہری کے ساتھ فراموش کر دیا گیا انہوںنے کہاکہ میری تجویز ہے

کہ یہ کانفرنس حمود الرحمن کمیشن کی سفارشات کو عوام کے سامنے لائے اور انہیں عملی جامہ پہنانے کا عہد کرتے ہوئے اپنے ایجنڈے کا حصہ بھی بنائے اس طرح کے ٹھوس اقدامات ہی سے ملک کو اس دلدل سے نکالاجاسکتا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ اس وقت ہماری اولین ترجیح اس غیر نمائندہ اور نا اہل اور سلیکٹیڈ حکومت اور اس سے زیاد ہ اہم اس نظام سے نجات حاصل کر نا ہے ۔انہوں نے

کہاکہ جس نے عوام اور اپوزیشن کے ساتھ ساتھ اچھی شہرت کے حامل جج صاحبان کو بھی نشانہ بنالیا ہے یہ تبدیلی عمل میں نہ آئی تو یہ نا اہل اور ظالمانہ نظام ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دے گا ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے دشمنوں کے عزائم کیا ہیں ان کے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے مضبوط معیشت کے ساتھ ساتھ مضبوط دفاعی نظام کی بھی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہماری

قومی سلامتی کے ضروری ہے کہ ہم اپنی معیشت کے ساتھ ساتھ اپنی مسلح افواج کو بھی مضبوط سے مضبوط تر کریں ہم نے اس کام میں ماضی میں بھی کوئی کوتاہی نہیں کی اور آئندہ بھی یہی ہماری ترجیح رہے گی ۔انہوںنے کہاکہ ہمارے دفاع کی مضبوطی اور قومی سلامتی کیلئے سب سے اہم یہ ہے کہ ہماری مسلح افواج آئین پاکستان ، اپنے دستوری حلف اور قائد اعظم کی تلقین کے مطابق

خود کو سیاست سے دور رکھیں اور عوام کے حق حکمرانی میں مداخلت نہ کریں ۔انہوںنے کہاکہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اے پی سی اتفاق رائے سے جو بھی حکمت عملی اور لائحہ عمل ترتیب دے گی مسلم لیگ (ن) اسکا بھرپور ساتھ دے گی میں اپنی یہ گزارش ایک بار پھر دہراتا چاہتا ہوں کہ الے پی سی رویت سے ہٹ کر حقیقی تبدیلی کیلئے ٹھوس اور موثر اقدامات تجویز کرے ۔ انہوں نے کہاکہ

ہمار ے کئی دوست آج قید و بند کی صعوبتیں کاٹ رہے ہیں خورشید شاہ ، کورونا میں مبتلا حمزہ شہباز ، میر شکیل الرحمن اور دیگر ساتھی ناکردہ گناہوں کی سزا میں جیل کاٹ رہے ہیں انہوںنے کہاکہ ہمارا مقصد بڑا ہے کل یہی قربانیاں

ہماری نئی صبح کی اثاث اور ہماری منزل کے حصول باعث بنیں گی انہوںنے کہاکہ میں آپ سب قائدین کا بے حد شکر گزار ہوں کہ مجھے اپنی گزارش پیش کر نے کا موقع دیا گیا میری اور پوری قوم کی دعائیں آپ کیساتھ ہیں ۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…