لاہور( این این آئی) پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ جج ارشد ملک کو تو گھر بھیج دیا گیا مگر اس سے یہ نہیں پوچھا کہ نواز شریف کو سزا کس کے کہنے پر دی بلکہ نواز شریف کو ہی دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیدیا؟،نواز شریف کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم اسی مقدمے میں ہے جس میں خود سزا دینے والے جج ارشد نے نواز شریف کی نہ صرف
بے گناہی بلکہ بلیک میلنگ اور دبائو میں زبردستی فیصلہ دلوائے جانے کا اعتراف کیا ہے، جج صاحب کب کے گھر جا چکے ہیں مگر فیصلہ آج بھی جوں کا توں ہے،مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ سیاستدانوں کی طرح معزز ججز بھی دبائو میں ہیں ، ان کے فیصلے کہہ رہے ہیں کہ وہ دبائو میں ہیں مگر کیا معزز جج حضرات کو اس قسم کی عدلیہ دشمن واروں کے سامنے دیوار نہیں بن جانا چاہیے ؟ ۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں مریم نواز نے کہا کہ محترم چیف جسٹس صاحب یہ تکلیف دہ سفر کب تمام ہوگا ، نظام انصاف کو اپنے مقام تک پہنچنے کے لئے کتنے بے گناہ قومی رہنمائوں اور آئین ، قانون اور انصاف پر چلنے والے معزز ججوں کی قربانی چاہیے ہو گی ۔اگر ایسا ہی ہے تو کیا یہ سلسلہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس قاضٗ فائز عیسیٰ پر رک جائے گا؟دبائو اور جبر انتظار کرنے سے نہیں ڈٹ کر مزاحمت کرنے سے ختم ہوتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جناب چیف جسٹس صاحب ، کیا آپ اس بیرونی دبائو کے بارے میں عوام کو کچھ بتائیں گے کہ کون انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے اور کس کے سامنے جج صاحبان بے بس ہیں؟۔اگر معزز جج صاحبان نے آج دبائو کے خلاف سٹینڈ نہ لیا تو یہ سلسلہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تک نہیں رکے گا بلکہ ہر وہ جج جو آئین اور قانون پر چلے گا ، اس ظلم و انتقام کی زد میں آئے گا۔انہوں نے کہا کہ
جج ارشد ملک کو تو گھر بھیج دیا گیا مگر اس سے یہ نہیں پوچھا کہ نواز شریف کو سزا کس کے کہنے پر دی بلکہ نواز شریف کو ہی دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیدیا؟۔یاد رہے کہ نواز شریف کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم اسی مقدمے میں ہے جس میں خود سزا دینے والے جج ارشد نے نواز شریف کی نہ صرف بے گناہی بلکہ بلیک میلنگ اور دبائو میں زبردستی فیصلہ دلوائے جانے کا اعتراف کیا ہے ،
جج صاحب کب کے گھر جا چکے ہیں مگر فیصلہ آج بھی جوں کا توں۔انہوں نے کہا کہ مقدمہ تو یہ ہونا چاہیے تھاکہ جج کے اعتراف جرم کے بعد سزا کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟اگر سزا ہی قائم نہ رہتی ہو تو واپسی کیسی ، گرفتاری کیوں؟۔انہوں نے کہا کہ بتائوکسی ایک کا نام جس کیلئے ایجنسیز پر مشتمل جے آئی ٹی بنی ہو ، جس کیلئے نیب ریفرنسز دائر کرنے کا حکم جاری ہوا ہو، جس کے لئے مانیٹرنگ ججز لگائے گئے
ہوں جس نے بیٹی سمیت عدالتوں میں 150سے زائد پیشیاں بھگتی ہوں؟۔ انہوں نے کہا کہ جو جیل کی کال کوٹھڑی میں جانے کیلئے اپنی سینتالیس سالہ رفیق حیات کو بستر مرگ پر چھوڑ کر اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامے ناکردہ جرائم کی سزا کاٹنے وطن واپس آ گیا ہو اور قانون کے آگے پیش ہو گیا ہو ، ایسے ہوتے ہیں مفرور اشتہاری ؟۔مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ سیاستدانوں کی طرح معزز ججز بھی دبائو میں ہیں ، ان کے فیصلے کہہ رہے ہیں کہ وہ دبائو میں ہیں مگر کیا معزز جج حضرات کو اس قسم کی عدلیہ دشمن واروں کے سامنے دیوار نہیں بن جانا چاہیے ؟