ہفتہ‬‮ ، 01 فروری‬‮ 2025 

کوڑیوں کے بھاؤ یہاں انصاف بکا ہے اور خریدار بھی ہم ہیں، کشمیر تو جب ملے گا سو ملے ، جو آپ کے ہاتھ میں ہے اور جو جا رہا ہے اس کیلئے تو یہ کام کرو، پی ٹی آئی سے علیحدگی کے بعد اختر مینگل کھل کر بول پڑے

datetime 17  جون‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے صدر سردار اختر مینگل نے حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اتحاد سے اپنی جماعت کی علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم پارلیمنٹ میں رہیں گے اور مسائل پر بات کرتے رہیں گے، اس ملک میں آج تک کسی کو انصاف نہیں ملا، کوڑیوں کے بھاؤ یہاں انصاف بکا ہے اور خریدار بھی ہم ہیں،عوام دوست بجٹ آج تک نہ ملک میں آیا ہے

اور نہ ہی کبھی آنے کے امکانات ہیں،بجٹ سے پہلے چینی، آٹے، پیٹرول وار اشیائے خورونوش کا بحران تھا، امن و امان کا بحران تھا، لوگوں کی اپنے گھروں میں حفاظت کا بحران تھا ،اس کے لیے کیا کچھ کیا گیا؟ روزگار دینے کے بجائے روزگار چھینا جا رہا ہے،بلوچستان کے 32اضلاع اس کی لپیٹ میں ہیں، کوئی بھی فصل نہیں چھوڑی، گندم، کپاس، سبزیوں اور باغات سمیت سب کچھ تباہ ہو گیا ہے،بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے ،کشمیر تو جب ملے گا سو ملے ، جو آپ کے ہاتھ میں ہے اور جو جا رہا ہے اس کیلئے تو کمیٹی بناؤ، کیوں نہیں کمیٹیاں بناتے،اگر بلوچستان کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں تو بلوچستان کو اس جائز حق دیں، بلوچستان کو اس ملک کا برابر حصہ دینا ہو گا، آج نہیں تو کل دینا ہو گا،ملک میں افغانستان امن کانفرنس بلائی جا سکتی ہے تو بلوچستان امن کانفرنس کیوں نہیں بلائی جا سکتی۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں بلوچستان نیشنل پارٹی- مینگل کی 4نشستیں ہیں اور بی این پی-مینگل کی حکومت سے علیحدگی کے بعد حکمران جماعت مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے صدر اختر مینگل نے کہاکہ ہر بجٹ کو عوام دوست بجٹ کہا جاتا ہے تاہم اب تک جو بجٹ آئے ہیں ان میں ہمیں کتنی فیصد عوام دوستی کی جھلک نظر آئی ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ بجٹ ممبر دوست ہو سکتا ہے، وزرا دوست ہو سکتا ہے، بیوروکریسی دوست ہو سکتا ہے،

عسکریت دوست ہو سکتا ہے لیکن عوام دوست بجٹ آج تک نہ اس ملک میں آیا ہے اور نہ ہی کبھی آنے کے امکانات ہیں۔انہوںنے کہاکہ اس ملک کے موجودہ بجٹ سے فائدہ کسے پہنچ رہا ہے ، کیا غریب کو فائدہ ملے گا، غریبوں کے لیے روزگار کے دروازے کھول دیے گئے ہیں، کیا انہی بجٹ سے عوام کی مہنگائی سے کمر چور چور نہیں ہوئیں۔اختر مینگل نے کہا کہ اس ملک میں آج تک کسی کو انصاف نہیں ملا، کوڑیوں کے بھاؤ یہاں انصاف بکا ہے

اور خریدار بھی ہم ہیں، ہم نے اس عوام کو مجبور کیا ہے کہ وہ انصاف لیں نہیں، انصاف کو خریدیں اور منڈیوں میں جس طرح انصاف بکتا ہے شاید ہی اس ملک کے علاوہ کہیں بکتا ہو۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کہا کہ ہم لوگوں کو روزگار دیں گے، صنعتیں روز بروز بند ہوتی جا رہی ہیں، آپ کی سب سے بڑی صنعت جس کو اسٹیل مل کہا جاتا تھا، آج اس کے مزدور سراپا احتجاج ہیں، اس کی نجکاری کی جا رہی ہے، ان لوگوں کو بیروزگار کرایا جا رہا ہے،

اس حلقے کے نمائندے یہاں احتجاج کرتے ہیں لیکن یہاں کوئی سننے والا نہیں ہے۔بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے صدر نے کہا کہ حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ جس دن بجٹ پیش کیا جاتا ہے تو پہلی صف بھری ہوتی ہے، جس دن بجٹ منظور کیا جاتا ہے تو صف بھری ہوتی ہے لیکن جب تجاویز پیش کی جاتی ہیں تو خوردبین سے حکومتی اراکین کو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ تمام اس وقت ممکن ہو سکتا ہے جب عوام کے حقیقی نمائندگی

کا حق رکھنے والے فری اینڈ فیئر الیکشن کے تحت منتخب ہو کر آئیں، جن کو عوام کا درد ہو، عوام کی مجبوریوں اور مصیبتوں کا احساس ہو۔انہوں نے کہا کہ جنہوں ننگے پاؤں ان لوگوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر سیاسی جدوجہد کی ہے، جنہوں نے اپنی، اپنے بچوں اور اپنی قوم کی جانیں گنوائی ہیں ان کو یہ احساس ہو گا کہ بجٹ کی اہمیت کیا ہے اور بجٹ سے کیا لینا چاہیے اور عوام کو کیا دینا چاہیے۔سردار ختر مینگل نے کہا کہ میں اپنی جماعت

کی تحریک انصاف کی حکومت سے علیحدگی کا باضابطہ طور پر اعلان کرتا ہوں، ہم پارلیمنٹ میں رہیں گے اور مسائل پر بات کرتے رہیں گے۔انہوں نے قومی اسمبلی میں خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اراکین اسمبلی اپنے حلقہ انتخاب سے منتخب ہو کر آئے ہیں، لوگوں کا احساس ہے ان میں اور وہ لوگوں کے احساس کو آپ تک پہنچانا چاہتے ہیں، مہربانی کر کے اگر آپ ان کی تجاویز کو حل نہیں کر سکتے تو کم از کم نوٹ تو کر لیں۔انہوںنے کہاکہ

اگر آپ لوگوں کے پاس کاغذ کے ٹکڑے نہیں ہیں، قلم نہیں ہیں، ہم سب فراہم کریں گے، چندہ کریں گے، ہم مولانا صاحب سے کہیں گے تمام مسجدوں میں اعلان کردیں کہ کاغذ اور چندے اکٹھے کر کے آپ لوگ ان سے نوٹ فرمائیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں ایک روایت رہی ہے کہ ہر حکومت پچھلی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتی ہے، میں موجودہ حکومت کی بات نہیں کرتا، پچھلی حکومتوں نے بھی یہی کیا ہو گا، اس سے پچھلی حکومتوں نے بھی

یہی کیا ہو گا کہ یہ بدحال معیشت ہمیں ورثے میں ملی ہے، خالی خزانہ ہمیں ورثے میں ملا ہے۔انہوںنے کہاکہ اگر آپ اسے ورثے کے چکر میں کھینچتے لے جائیں تو بات 1947 تک پہنچ جائے گی کیونکہ ورثہ تو وہاں سے شروع ہوتا ہے، پھر تو آپ کہیں گے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیں پاکستان خالی اور کھوکھلا کر کے دیا ہوا تھا۔اختر مینگل نے کہا کہ آپ یہ کہیں کہ میں نے کیا کیا ہے، میں کیا کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے تو شک ہے کہ اگلا

بجٹ کہیں ہم کورونا یا ٹڈی دل کے حوالے تو نہیں کردیں گے کیونکہ یہ کہیں گے کہ یہ جو بجٹ ہم دینے جا رہے ہیں اس کی ذمے دار کورونا یا ٹڈی دل ہے۔انہوںنے کہاکہ بجٹ سے پہلے چینی، آٹے، پیٹرول وار اشیائے خورونوش کا بحران تھا، امن و امان کا بحران تھا، لوگوں کی اپنے گھروں میں حفاظت کا بحران تھا لیکن اس کے لیے کیا کچھ کیا گیا؟ روزگار دینے کے بجائے روزگار چھینا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بجٹ میں کہا گیا کہ این ایف سی ایوارڈ

پر نظرثانی کی جائے گی، یہ غلطی سے چھپا ہے یا زبان پھسل گئی ہے؟ نہیں، یہ ان کی پالیسی ہے اور اس پالیسی کے چرچے ہم کئی عرصے سے سن رہے ہیں۔اختر مینگل نے کہا کہ میں اس ایوان کے توسط سے حکومت اور وزرا سے اس بات کی وضاحت چاہوں گا کہ یہ نظرثانی کس طرح کی جا رہی ہے، کیا یہ جو کہا جا رہا تھا کہ 18ویں ترمیم کو ختم کیا جائے گا تو کیا یہ اسی کا حصہ ہے، یہ کس کی پالیسی ہے، حکومت کی پالیسی ہے، ان کے

اتحادیوں کی پالیسی ہے یا کسی اور کی پالیسی ہے۔انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کی رقم کو کم کردیا گیا ہے اور اس کے بدلے تمام صوبوں کو پیکج دیے گئے ہیں لیکن بلوچستان کو صرف 10ارب کا پیکٹ دیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے چمن 813کلومیٹر کا یہ فاصلہ ہے، بلوچستان میں شاید اتنے لوگ دہشت گردی سے نہیں مرے جتنے اس سڑک پر حادثات سے مرے ہیں، ساڑھے 4ہزار لوگ حادثات کا

شکار ہو کر مرے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پچھلے پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام(پی ایس ڈی پی) میں ہم نے درخواست کی تھی کہ خدا کے واسطے ہمیں چھ لائن والا موٹر وے نہیں چاہیے، ہمیں وہ نہیں چاہیے کیونکہ وہ کشادہ دل آپ کے ہو سکتے ہیں، ہم اتنے بڑی کشادہ سڑکوں پر نہیں چل سکتے، ہمیں صرف دو رویہ سڑک فراہم کی جائے۔اختر مینگل نے کہا کہ پچھلے پی ایس ڈی پی میں جو بجٹ رکھا گیا تھا، اس سال اسے کرونا یا ٹڈی دل کھا

گیا، یہ اسی طرح بلوچستان کو اپنے ساتھ چلائیں گے؟ یہی ہے بلوچستان کی اہمیت؟ یہی ہیں بلوچستان کی احساس محرومی کو ختم کرنے کے طریقے اور یہ روڈ آپ کے کوسٹل ہائی، سی پیک، رتو ڈیرو سے خضدار سڑک اور تفتان سڑک سے بھی جا کر ملتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کورونا ایک عالمی وبا ہے اور ترقی یافتہ ممالک بھی اسے کنٹرول نہیں کر پا رہے اور اس کی بنیادی ضروریات احتیاط اور تشخیص ہے۔انہوں نے

کہاکہ جب یہ وبا چین سے اٹلی پہنچی اور ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں تو یہ ہمارے لیے وارننگ تھی تاہم ہم نے احتیاط نہیں کی، ایس او پیز جو اس وقت ہمیں اپنانے چاہیے تھے، وہ آج ہم اپنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ہم نے تفتان کے بارڈر کو کھول دیا، شاید کسی عقل مند نے کہا ہو گا کہ آنے دو ان لوگوں کو، یہ جب آئیں گے تو کورونا آئے گا، جس طرح افغان مہاجرین آئے تھے تو ان کے ساتھ ڈالر تھے تو ان کے ساتھ بھی ڈالر آئیں گے۔اختر مینگل

نے سوال کیا کہ تفتان کی سرحد کو کھولنے کی اجازت کس نے دی تھی؟ کچھ احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے تھیں، کوئی نارمل بندہ بھی حکومت کی جانب سے لگائے گئے ٹینٹوں میں نہیں رہ سکتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر اس کی ذمے دار وفاقی حکومت ہے، اگر اس کی ذمے دار وفاقی حکومت کے ادارے ہیں، اگر اس کی ذمے دار صوبائی حکومتیں ہیں، میں آج مطالبہ کرتا ہوں کہ جو بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں ان کی ایف آئی آر ان حکمرانوں کے خلاف کٹائی

جائے کیونکہ یہ ہی ان کے ذمے دار ہیں۔اختر مینگل نے کہا کہ غالباً پچھلے سال اسی مہینے میں ہم نے کہا تھا کہ ٹڈی دل آ رہا ہے اس کے لیے احتیاط کی جائے، آصف علی زرداری سمیت کئی اراکین نے اس پر بات کی لیکن کسی نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا اور چند اضلاع تک محدود ٹڈی دل آج پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے 32اضلاع اس کی لپیٹ میں ہیں، کوئی بھی فصل نہیں چھوڑی، گندم، کپاس، سبزیوں اور باغات

سمیت سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ نے کہا کہ 2012 میں جب میں سپریم کورٹ میں پیش ہوا تو عمران خان صاحب نے کندھے سے کندھا ملا کر کہا بلوچستان میں ظلم و زیادتیاں ہوئی ہیں، لاپتہ افراد کا مسئلہ غلط ہے اور جو ان کے ذمے دار ہیں، میں ان کو کٹہرے میں لاؤں گا جبکہ اس سے پہلے میاں نواز شریف نے بھی یہی کہا۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہوا، ہم نہیں بنی گالا گئے بلکہ وہ کوئٹہ

آئے، دو معاہدے ہوئے، ایک 8اگست 2018 کو ہوا اس میں شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، سردار یار محمد رند کے دستخط ہیں اور لاپتہ افراد اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سمیت تمام مسائل پر انہوں نے من و عن اتفاق کیا۔اختر مینگل نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد صدارتی الیکشن کے موقع پر بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے معاہدہ ہوتا ہے جس میں صحت، تعلیم، پانی، توانائی، ملازمت، گوادر کا مسئلہ، انفرااسٹرکچر

فیڈرل پی ایس ڈی پی سمیت دیگر باتیں شامل تھیں، کوئی ایک شخص ہاتھ اٹھا کر کہہ دے کہ ان نکات میں سے ایک بھی نکتہ غیرآئینی او غیرقانونی ہے اگر یہ مطالبات غیرآئینی ہیں تو اس جرم کے ذمے دار صرف ہم نہیں ہیں، ہم نے مطالبہ کیا، اگر اس کے جرم میں ہمیں سزائے موت دی جاتی ہے تو اس پر دستخط کرنے والوں کو بھی ہمارے ساتھ سزائے موت دی جائے، اس میں آپ کے موجودہ صدر بھی ہیں، کیوں عملدرآمد نہیں ہوتا۔ان کا کہنا تھاکہ یہ

ذہنیت 1947 سے چلی آ رہی ہے، یہ وہ مائنڈ سیٹ ہے جس نے بلوچستان اور چھوٹے صوبوں کو اس ملک کی کالونی سمجھا ہوا ہے لیکن ہم کالونی نہیں ہیں، اگر ہمیں اس ملک کا حصہ سمجھا جاتا ہے تو ہم سے شہری جیسا سلوک کیا جائے۔اختر مینگل نے کہا کہ دو دن پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک لڑکی جس کا بھائی چار سال سے غائب ہے، وہ احتجاج کرتے کرتے اتنی تھک گئی کہ دو دن پہلے اس نے خودکشی کر لی، اس کی ایف آئی آر کس پر

کاٹوں، اپنے آپ پر کہ میں نے اسے کہا کہ انتظار کرو، اپنے پارٹی کے نمائندگان پر اس کی ایف آئی آر کٹواؤں کہ میں نے ان سے کہا کہ تمہارا بھائی آئے گا یا ان لوگوں نے جنہوں مجھے یہ آسرا دیا کہ ان سب کے بھائی، بیٹے اور والد آئیں گے ، ان پر ایف آئی آر کاٹوں یا حسب روایت ان سب پر مٹی پادوں۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور ہم نے ہمیشہ اس مسئلے کو سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی اور ان کے ذریعے ہم نے آپ

کو ایک راہ دکھائی تھی کہ خدارا اگر آپ بلوچستان کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں تو اس پر عملدرآمد کریں۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کے حوالے سے کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں، کشمیر تو جب ملے گا سو ملے لیکن جو آپ کے ہاتھ میں ہے اور جو جا رہا ہے اس کے لیے تو کمیٹی بناؤ، کیوں نہیں کمیٹیاں بناتے۔انہوں نے کہا کہ اگر بلوچستان کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں تو بلوچستان کو اس جائز حق دیں، بلوچستان کو اس ملک کا برابر حصہ دینا ہو گا، آج نہیں تو کل دینا

ہو گا۔اختر مینگل نے کہا کہ اس ملک میں افغانستان امن کانفرنس بلائی جا سکتی ہے تو بلوچستان امن کانفرنس کیوں نہیں بلائی جا سکتی۔انہوںنے کہاکہ یا تو یہ کہہ دیں کہ نوگو ایریا ہے بلوچستان، یا ممنوعہ علاقہ ہے، اگر ممنوعہ نہیں کہہ سکتے تو مفتوحہ کہہ دیں، اگر مفتوحہ نہیں کہہ سکتے تو مقبوضہ کہہ دیں، پھر وہ چیزیں جو کچھ آپ کر رہے ہیں اس میں بالکل جائز ہوتی ہیں، پھر بلوچستان کا کوئی بے وقوف ہی ہو گا جو آپ سے گلا کرے گا، ان تینوں

میں سے ایک نام آئین میں ترامیم کر کے دے دیں، مفتوحہ بلوچستان یا مقبوضہ بلوچستان۔انہوں نے کہا کہ ہم آپ سے کوئی گلا نہیں کریں گے، ہم اپنی لاشیں بھی خاموشی سے دفنائیں گے، ان لاپتہ افراد کے لواحقین کو بولیں گے کہ اب رونا بس کردو، یہ خدا کی طرف سے تم پر قہر آیا ہے اس کو سہتے رہو۔بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل کے سربراہ نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے پورے ملک میں آن لائن کلاسز ہو رہی ہیں لیکن بلوچستان میں نہیں ہو رہیں

کیونکہ انٹرنیٹ پچھلے 8سال سے بلوچستان میں بند کردیا گیا ہے، وہاں کوئی تھری یا فور جی سروسز دستیاب نہیں۔انہوں نے اپنی تقریر کے اختتام پر کہا کہ ہماری پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے، ہم نے اتحادیوں کو یاد دہانی بھی کرائی، ان کو شاید ہماری ضرورت نہیں تھی تو آج بلوچستان نیشن پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے فیصلے کے توسط سے پی ٹی آئی سے میں اپنی پارٹی کے اتحاد کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کرتا ہوں۔یاد رہے

کہ اگست 2018 میں بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل اور تحریک انصاف نے مرکز میں حکومت سے اتحاد کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔اس یادداشت کے تحت چھ نکاتی ایجنڈے پر اتفاق کیا گیا جس میں لاپتہ افراد کی بازیابی، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، وفاقی حکومت میں بلوچستان کے لیے 6فیصد کوٹا پر عملدرآمد، افغان مہاجرین کی فوری واپسی اور صوبے میں پانی کے بحران کے بحران کے حل کے لیے ڈیم کا قیام شامل تھا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی-مینگل نے صرف مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت سے اتحاد کیا تھا جبکہ صوبائی سطح پر پارٹی کا جمعیت علمائے اسلام(فضل) سے اتحاد جاری رہا تھا۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے سید حسنین طارق نے کہاکہ اپوزیشن اراکین کو حکومت کی جانب سے کوئی فنڈ نہیں جاری کیا جاتا ہے،کیا اپوزیشن اراکین عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر نہیں آتے ہیں،کیا ایوان کے دوسری طرف حکومتی بینچوں پر موجود کہیں

اور سے منتخب ہو کر آئے ہیں،اس گورنمنٹ میں پٹرول کو سستے کرنے کے نام پر 25 پیسے تک سستا کر کے مذاق بھی کیا گیا،ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر کہاں ہیں جو لوگوں کو دئیے جانے تھے،اگر آپ سے معیشت نہیں چلا جاتی ہے، تو ہم سب ڈوبتے ہیں،ہمارے لیڈر بلاول بھٹو نے اس لیے کہا کہ ہم بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں،کیونکہ بلاول بھٹو ہمارے لیڈر کو سب سے پہلے ملک بقاء کا خیال ہے،بجٹ میں ہیلتھ سیکٹر میں کرونا کے لیے

بڑی فنڈنگ دینی چاہیے تھی،صوبوں کو بھی اس ہیلتھ بجٹ میں مختص حصہ دینا چاہیے تھا،،موجودہ حکومت میں ٹیکسوں کو بڑھا دیا گیا ہے، ہمارے اکانومی اس وقت منفی میں ہے،ان ڈائریکٹر ٹیکسوں میں اضافہ کرکے عوام پر اضافی بوجھ ڈال دیا گیا ہے،یہ ٹیکس غریب آدمی کو موجودہ بجٹ میں سب سے زیادہ متاثر کررہا ہے،جن لوگوں کا گزرا صرف سیلری اور پینشن پر ہے، ان کی تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے،ایک طرف انفلیشن میں 10 فیصد

اضافہ ہوا ہے، دوسری طرف کوئی ریلیف نہیں ہے،حکومت کو ابھی بھی ادھر ادھر سے کرونا فنڈ میں اضافہ کرنا چاہیے ،ڈیم فنڈ کے لیے ابھی موجودہ صورتحال میں ضرورت نہیں ہے،اس فنڈ کو ابھی اس وباء کیلئے استعمال کرنا چاہیے۔صلاح الدین نے کہاکہ جناب اسپیکر پچھلے 6 مہینے سے کرونا وباء جاری ہے،موجودہ صورتحال میں جو ہمیں نقصان پہنچا ہے، اس کی بڑی وجہ یہ وباء ہے،3 ماہ میں جو صورتحال پیدا ہوئی ، اور پھر لاک ڈاؤن جب کھلا

، ملک میں بے چینی پیدا کی گئی ،ملک میں اس وباء کے بعد 2 رائے سامنے آئی تھی، وفاق اور تین صوبوں کی رائے ایک جبکہ ایک صوبے کی رائے علیحدہ تھی،دونوں کے فیصلے قابل احترام ہیں، یہ سب عوام کے لیے ہی سوچ رہے تھے،جب تک دنیا میں کرونا کا ایک مریض بھی ہے، تو دنیا تب تک خطرے میں ہے،ہمیں اس وباء کے ساتھ جینا ہے، لیکن مکمل احتیاط کے ساتھ رہنا ہے،ہمیں لوگوں کی جانوں کے ساتھ ، اس معیشت کے پہیے کو بھی

چلانا ہے،ہمیں آگے اس کرونا کو مدنظر رکھ آگے فیصلے کرنے ہوں گے،ہم نے اپنے صوبے کے ہر فیصلے کو ہر صورت قبول کیا ہے،صوبے کہتے ہیں، کہ وفاق ان کی بات کو سیریس نہیں کیا جارہا ہے،صوبہ سندھ کا وزیراعلیٰ کیا اس معاملے میں خود سیریس تھا،عام لوگوں کو منگو پیر کے پہاڑوں کے پیچھے دفن کیا جارہا ہے لیکن وزیراعلیٰ سندھ کا رشتہ فوت ہوا، جس میں ہزاروں کا مجمع اکٹھا کیا گیا،وزیراعلیٰ سندھ نے خود اس کی خلاف

ورزی کر کے دوہرا معیار اپنا رکھا ہے،سندھ نے لاک ڈاؤن کا اعلان کرکے لوگوں کو پوچھا تک نہیں ہے۔صلاح الدین نے کہاکہ بہت سے دوستوں نے اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے یہاں پر بات کی ہے، یہ ہے کیا،ہمیں کہا گیا اگر یہ ہوجاتا ہے، تو صوبوں کی لڑائی ختم ہوجائے گی،ہر صوبہ اپنی عوام کی فلاح پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے سکے گالیکن آج ہم اس ترمیم کا حصہ بننے پر اس وقت گناہگار مانتے ہیں،اس ترمیم کا مقصد کسی صوبے کے

وزیراعلیٰ کو بادشاہ بنانا نہیں تھا،ایک صوبے کے لیڈر کی جانب کل یہاں پر بڑے بول بولے گئے ،آپ جب وفاقی حکومت کے بجٹ پر تنقید کررہے تھے، تو صوبہ سندھ کی جانب تو پلٹ کر دیکھتے ،کیا آپ کے صوبے میں پانی، مواصلات ، سیوریج کا مسئلہ حل ہو گیا،میرا شہر حیدر آباد سیوریج کے پانی میں ڈوب رہا ہے، آپ نے کہیں کوئی پیسہ لگایا،ان لوگوں کے اربوں روپے کی جائیداد ہے، کیا اس پر یہ زکواۃ دیتے ہیں،کیا ان لوگوں نے حکومت میں

بیٹھ کر لوٹنے کے علاوہ خود اپنی جیب سے بھی لوگوں کی مدد کی ہے۔ انہوںنے کہاکہ اس اٹھارہویں ترمیم پرپھر سے ترمیم کے حوالے سے غوروفکر فکر ہونا چاہیے۔ایم کیوایم کے رکن صلاح الدین نے کہاکہ سندھ میں جعلی ڈومسائل پر نوکریاں دی گئیں اور کروڑوں نوجوانوں کا میرٹ پر حق مارا گیا اس کی تحقیقات کرائی جائیں۔عالیہ حمزہ پارلیمانی سیکرٹری نے کہاکہ لاک ڈائون مسئلہ کا حل نہیں، ایس او پی کے ساتھ سب کھولنا ہوگا،سمارٹ لاک

ڈاون ہی مسائل کا حل ہے،انہوںنے کہاکہ بلوچستان کے لئے دس ارب کی اضافی گرانٹ دی گئی ہے،کراچی میں کچرا اٹھانے کے لئے پیسہ وفاق دیتا ہے،ہم سے زیادہ سرکاری ملازمین کا کوئی ہمدرد نہیں ہے،مسلم لیگ ن کے دور کے آخر میں تمام ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے تھے،آج پاکستان ٹیررازم سے ٹورازم اور ایڈ سے ٹریڈ کا سفر کر رھا ہے۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہاکہ دوہزار بیس اکیس کے

بجٹ ڈاکومنٹس میں جاری مالی سال کا نظرثانی شدہ بجٹ دیا ہی نہیں گیا،حکومت جو ٹیکس اہداف دکھارہی ہے وہ قابل عمل نہیں،وزارت خزانہ کے لوگ وضاحت کرے کہ ایف بی آر کا جاری مالی سال کا ریونیو جو دکھا رہے ہیں وہ درست نہیں،جاری مالی سال کا بجٹ خسارہ دس اعشاریہ ایک فیصد ہے،یہ تاریخ کا بدترین بجٹ خسارہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ اپنا بجٹ خسارہ چھپانے کیلئے صوبوں کے بجٹ خسارے کو دکھایا نہیں گیا،بجٹ کو جان بوجھ کر

غلط اعدادوشمار اور جھوٹ سے بیان کیا گیا،قوم کے سامنے غلط اعدادوشمار رکھے گئے ہیں، آئی ایم ایف سے بھی غلط بیانی کی گئی ہے،ان کا قرض پہلے دوسال میں 11کھرب ہے،حکومت نے سود کی شرح کو بہت زیادہ بڑھادیا، صرف پالیسی ریٹ بڑھانے کی وجہ سے ملک پر دو ہزار ارب کا قرض بڑھادیا،ایکسچینج ریٹ کو بہت تیزی سے اور اصل سے زیادہ بڑھادیا،اگر ایکسچینج ریٹ غلط نہ ہوتا تو دوھزار چھ سو ارب کا اضافی بوجھ نہ پڑتا،جی ڈی

پی کا قرض 79 فیصد ہونا چاہئے تھا جو ان کی غلط پالیسی کی وجہ سے 90فیصد ہوگیا،بھاری سود پر طویل مدت قرض لئے گئے، النامک کی اے بی سی بھی انہیں معلوم نہیں،کورونا کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت خراب ہوئی، سٹرکچرل ریفارمز لانی چاہئیں تھیں۔ انہوںنے کہاکہ امراء کو ایک ہزار ایک سو ارب روپے کے ٹیکس چھوٹ دی گئیں، سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ کرکے عوام کو ریلیف دیتے،زراعت، سمال مڈیم انٹرپرائزز کو کوئی ریلیف نہیں دیا

گیا،حکومت کی اکنامک ٹیم کو قابل احتساب بنانا چاہئے،غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کیسے درست کریں گے بجٹ میں نہیں بتایا گیا،امراء سے قربانیاں لی جائیں۔قومی اسمبلی یعقوب شیخ نے کہاکہ چشمہ رائٹ بنک کینال منصوبہ کئی سال سے زیر التوا ہے، حکومت اسے ترجیح دے،مارجنل بند کی تعمیر مکمل کی جائے تاکہ پانی کا کٹائوختم ہو،ڈیرہ اسماعیل خان میں کوئی قابل ذکر جدید ہسپتال نہیں ہے،ملک کا دفاع کے لئے بجٹ بڑھایا جائے، ھم مشکل

خطے میں رہ رہے ہیں،بحیثیت قوم اپنی معیشت کی بحالی، صنعتوں کے فروغ کے لئے اقدامات کرنے چاہئیں۔قومی اسمبلی ڈاکٹر مہیش کمار نے کہاکہ یہ عوام دشمن، مزدور دشمن، زراعت دشمن بجٹ ہے،ٹڈی دل کی وجہ سے زراعت کو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے،وفاقی بجٹ میں کوویڈ-19 کو نظرانداز کیا گیا،پارلیمنٹ اور جمہوریت کو 18ویں ترمیم سے مضبوط کیا گیا۔ اجلاس کے دور ان پی ٹی آئی کی عالیہ حمزہ کو بجٹ پر بات کے لئے دوسری

بار موقع دے دیا گیا،عالیہ حمزہ کو پارٹی چیف وہپ عامر ڈوگر کے کہنے پر دوبارہ وقت دیا گیا،امجد نیازی نے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے تین منٹ وقت دینے کا اعلان کیا،عالیہ حمزہ نے مسلم لیگ ن اور پی پی پی پر سخت تنقید کی ۔سعد وسیم نے کہاکہ ملک کے عوام کو بجٹ سے بہت امیدیں تھیں،بجٹ نے عوام کو انتہائی مایوس کیا ہے اور تمام توقعات ضائع گئی ہیں،بجٹ بنانے میں پی ٹی آئی حکومت کا اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا عمران خان کا حکومت چلانے میں،پاکستان کو کثیر جہتی بحرانوں کا سامنا ہے لیکن سب سے بڑا بحران قیادت کا ہے۔بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس (آج)جمعرات صبح 11بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔

موضوعات:



کالم



تیسرے درویش کا قصہ


تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…