لاہور(این این آئی) صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہاہے کہ وزیراعظم عمران خان نے لاہور کے دورہ کے دوران کورونا وائرس سے متاثرہونے والے علاقوں میں پھیلا کو روکنے کیلئے مختلف حکمت عملی اپنانے کاعندیہ دیاتھا،گذشتہ دو روز کے دوران لاہور شہر کے سروے کے مطابق کورونا وائرس نے جن علاقوں کو زیادہ متاثر کیا ان میں شاہدرہ،اندرون شہر، مزنگ،شادباغ،ہربنس پورہ،گلبرگ،کینٹ،
نشتر ٹان اورعلامہ اقبال ٹان کے علاوہ کچھ رہائشی کالونیاں بھی شامل ہیں،فیصلہ کے مطابق ان علاقوں کو بندکرنے کے بعد کھانے پینے کی چیزوں، میڈیکل سٹورز،طبی حفاظتی سامان بنانے والی فیکٹریوں و دیگر متعلقہ شعبہ جات کو کھولا جائے گا،متاثرہ علاقہ جات کو کم از کم دو ہفتے کیلئے بند رکھاجائے گا لیکن اس دورانیہ میں کورونا وائرس کے کیسز کا باقاعدہ جائزہ لیاجائے گا،تازہ اعدادوشمار کے مطابق صوبہ بھر میں 54138 کورونا وائرس کے کنفرم مریض ہیں،گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 1537افراد کورونا وائرس کا شکار ہوئے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے وزیراعلی آفس میں اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر کمشنر لاہور سیف اللہ انجم، سی سی پی او لاہور ذوالفقار حمید، ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ سپیشلائیزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈاکٹر آصف طفیل، سی ای او میوہسپتال پروفیسر ڈاکٹر اسد اسلم خان اور ڈپٹی کمشنر لاہور دانش افضال بھی موجود تھے۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشدنے اس موقع پر مزیدکہاکہ صوبہ بھر میں کورونا وائرس کا مقابلہ کرتے ہوئے 1038افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 62افراد کورونا وائرس کے باعث جاں بحق ہوئے۔صوبہ بھر میں کورونا وائرس کو شکست دے کر صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد 18000ہے۔چوبیس گھنٹوں کے دوران صوبہ پنجاب میں کورونا وائرس کے 9103تشخیصی ٹیسٹ کئے گئے
جبکہ تشخیصی ٹیسٹوں کی مجموعی تعداد 356678 ہے۔ لاہور کو کورونا وائرس کی وبا کا مرکز تصور کیاجا رہا ہے۔لاہور میں کورونا وائرس کے مریضوں کی مجموعی تعداد 26487 ہے۔راولپنڈی میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد4217،ملتان میں 3140،گوجرانوالہ میں 2014،فیصل آبادمیں 3750 اور پنجاب کے باقی بڑے شہروں میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 500سے 700کے دوران ہے۔لاک ڈان ختم کرنے کے بعد
عوام کواحتیاطی تدابیر پر سختی سے عملدرآمد کرنے کیلئے آگاہی مہم چلائی گئی جس کی زیادہ تر لوگوں نے خلاف ورزی کی۔حکومت نے خلاف ورزی پر مارکیٹس اور دکانیں بھی سیل کیں جس کے باوجود لاہور کے باسیوں نے کورونا وائرس کی وبا کو سنجیدہ نہ لیا۔ وزیراعظم عمران خان نے لاہور کے دورہ کے دوران کورونا وائرس سے متاثرہونے والے علاقوں میں پھیلا کو روکنے کیلئے مختلف حکمت عملی اپنانے کاعندیہ دیاتھا۔گذشتہ دو روز کے
دوران لاہور شہر کے سروے کے مطابق کورونا وائرس نے جن علاقوں کو زیادہ متاثر کیا ان میں شاہدرہ،اندرون شہر، مزنگ،شادباغ،ہربنس پورہ،گلبرگ،کینٹ،نشتر ٹان اورعلامہ اقبال ٹان کے علاوہ کچھ رہائشی کالونیاں بھی شامل ہیں۔فیصلہ کے مطابق ان علاقوں کو بندکرنے کے بعد کھانے پینے کی چیزوں، میڈیکل سٹورز،طبی حفاظتی سامان بنانے والی فیکٹریوں و دیگر متعلقہ شعبہ جات کو کھولا جائے گا۔منگل کو رات بارہ بجے سے ان فیصلوں پر
عملدرآمد کرتے ہوئے کورونا وائرس سے متاثرہ علاقوں کو بند کر دیاجائے گا۔متاثرہ علاقہ جات کو کم از کم دو ہفتے کیلئے بند رکھاجائے گا لیکن اس دورانیہ میں کورونا وائرس کے کیسز کا باقاعدہ جائزہ لیاجائے گا۔متاثرہ علاقہ جات میں کورونا وائرس کے کیسزکی تعداد کم ہونے کے باعث بندکئے گئے ایریاز کو کھولا بھی جاسکتاہے جس کا فیصلہ بعد میں کیاجائے گا۔عوام سے حکومت کی جانب سے دیئے گئے ایس او پیز پرمکمل عملدرآمد کرنے کی اپیل
کی جاتی ہے ورنہ ان علاقوں کی طرح کورونا وائرس کے پھیلا پر دوسرے علاقے بھی بند کر دیئے جائیں گے۔کورونا وائرس سے بچا کا واحد حل سماجی فاصلے اور احتیاطی تدابیر پر سختی سے عملدرآمدکرنا ہے۔کورونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے جس سے دنیابھر کی معیشت بری طرح متاثرہوئی ہے۔چائنہ جیسے بڑے ملک نے انتہائی زبردست حکمت عملی اپناکر اس وبا کو روکا لیکن وہاں بھی اب دوبارہ کورونا وائرس
کے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔نیوزی لینڈ کی آبادی لاہور کی آبادی کی نسبت پچاس فیصد ہے۔پاکستان دنیا کی آبادی کے حوالہ سے پانچواں بڑا ملک ہے جہاں آبادی زیادہ ہوگی وہاں قدرتی طور پر کورونا وائرس کے کیسز کی تعدادبھی زیادہ سامنے آئے گی۔اگر پاکستان کا مقابلہ بھارت کے ساتھ کیا جائے تو پاکستان کورونا وائرس کی وبا کے خلاف جنگ انتہائی کارآمد حکمت عملی کے مطابق لڑ رہا ہے۔پاکستان میں کورونا وائرس کے باعث ہلاکتوں اور
کیسز کی تعداد ابھی بھی دوسرے ممالک کی نسبت کم ہے۔بطور حکومت کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے اور تمام تر وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں۔پنجاب میں کورونا وائرس کے مریضوں کی سہولت کی خاطرہر قسم کی طبی سہولیات موجود ہیں۔پنجاب میں سپیشلائیزڈہیلتھ کیئر کے 140ہائی ڈیپینڈنسی بستر،نجی ہسپتالوں میں 368بستردستیاب جبکہ کل بستروں کا تیس فیصد کورونا وائرس کے مزید
مریضوں کیلئے مختص کیاگیاہے۔آج کے دن میوہسپتال لاہور میں مزید15نئے وینٹی لیٹرز اور 15وینٹی لیٹرز جناح ہسپتال میں انسٹال کر دیئے گئے ہیں۔اگلے ہفتے کے دوران ہائی ڈیپینڈنسی بستروں میں ایک ہزار کا مزید اضافہ کر دیاجائے گا۔ایکٹیمرا انجکشن پنجاب کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں دستیاب ہے اور ضرورت کے تحت کورونا وائرس کے مریضوں کو لگایاجا رہاہے۔اسی طرح ہیلتھ کیئر کمیشن کو نجی ہسپتالوں میں بھی ایکٹیمراانجکشن کی
دستیابی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔نشتر میڈیکل کالج میں آج 10نئے وینٹی لیٹرزانسٹال کرنے کے علاوہ طیب اردگان ہسپتال میں تمام وینٹی لیٹرز کو فعال کر دیا جائے گا۔سوشل میڈیا پر عوام کے درمیان کورونا وائرس کے حوالہ سے افراتفری پھیلانے کیلئے غلط خبروں کا استعمال بند کیاجائے جس سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔پنجاب کی 1033ہیلپ لائن نمبر ہے جہاں کوئی بھی شخص کورونا وائرس سے متعلق شکایت درج
کروانے،مشورہ لینے یا ہسپتالوں میں داخل اپنے پیاروں کے علاج معالجہ بارے معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔لاہور کے شہری 042-99211136-8پر رابطہ کرسکتے ہیں۔کورونا وائرس سے متاثرہ علاقوں کو بندکرنے سے وبا پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور ہم امید رکھتے ہیں کہ عوام احتیاطی تدابیر پر سختی سے عملدرآمد کریں گے۔صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ بندکئے جانے والے متاثرہ علاقوں میں مارکیٹس بند کر دی جائیں گی
اور صرف اشیائے ضروریہ کی دکانوں کو کھولا جائے گا۔علامہ اقبال ٹان میں 358کیسزجبکہ واپڈاٹان میں کورونا وائرس کے 259کیسزسامنے آئے ہیں۔ہر مریض کے اہلخانہ کی خواہش پر مریض کو وینٹی لیٹر پر منتقل نہیں کیاجاسکتا بلکہ ضرورت کے مطابق کورونا وائرس کے شکار مریض کووینٹی لیٹر پر منتقل کیا جاتا ہے۔دو روز پہلے وائی ڈی اے کے تمام نمائندگان کے ساتھ ملاقات ہوئی جن کو بتایاگیاکہ کسی بھی ڈاکٹر کو علاج معالجہ کے حوالہ سے ہر قسم کی سہولت فراہم کی جائے گی جس پر انہوں نے اطمینان کا اظہارکیاہے۔این ڈی ایم اے بہت تعاون کر رہا ہے۔فرنٹ لائن ورکرز کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں گے۔کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج معالجہ کرنے والے ڈاکٹرز،نرسزاور پیرامیڈیکل سٹاف کوقدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔