لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان ریلوے کے ملازمین نے حکومت کی جانب سے تنخواہیں نہ بڑھانے پر لاہور میں احتجاج شروع کر دیا۔ ایک نجی ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق شیڈ انجن میں کئے گئے احتجاج کے دوران مشتعل مظاہرین نے تیزگام ایکسپریس کا انجن بھی روک لیا۔ ریلوے ملازمین نے کہا کہ قاتل بجٹ کسی صورت منظور نہیں، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے لیکن تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا،
مظاہرین کے مطابق بجٹ میں غریب کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا، پہلے ہی غریب مزدور پس رہے ہیں اور بجٹ میں بھی انہیں کچھ نہیں ملا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے ریلوے میں مکمل اوور ہالنگ اور ملازمین کی چھانٹیوں کا حکم دیتے ہوئے ایک ماہ میں ریلوے ملازمین اور آپریشن سے متعلق تفصیلی رپورٹ بھی طلب کرلی۔گزشتہ روز سپریم کورٹ میں ریلوے ملازمین کی سروس مستقلی کے حوالے سے دائر مختلف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔چیف جسٹس نے سیکریٹری ریلوے سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ ٹی ایل اے کے تحت عارضی طور پر کتنے ملازمین بھرتی کیے گئے، جس پر سیکریٹری نے بتایا کہ ٹی ایل اے میں 2 ہزار 712 ملازمین ہیں۔سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ ٹی ایل کے ملازمین کو تنخواہ مقامی حکومت دیتی ہے جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ تو پھر یہ ملازمین ریلوے کے کیسے ہوئے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے سیکرٹری ریلوے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دور میں ریلوے کے کتنے حادثے ہوئے ہیں، آپ سے ریلوے نہیں چل رہی ہے، چھوڑدیں ریلوے، آج سے آپ سیکرٹری ریلوے نہیں ہیں۔چیف جسٹس کے ریمارکس پر سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ میں وفاقی ملازم ہوں، کہیں اورچلا جاؤں گا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریلوے میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی جاتی ہیں اور حکومت آپ کو آئے دن 5 کروڑ کا گرانٹ دیتی ہے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ ریلوے میں ٹوٹل کتنے ملازمین ہیں، جس پر سیکریٹری ریلوے نے بتایا کہ 76 ہزار ملازمین ہیں، 142 مسافر ٹرینیں اور 120 مال بردار ٹرینیں چل رہی ہیں لیکن اس وقت کورونا کی وجہ سے صرف 43 مسافر ٹرینیں فعال ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ آپ نے 76 ہزار ملازمین رکھے ہیں، ریلوے کا نظام چلانے کے لیے تو 10 ہزار کافی ہیں، آپ کی ساری فیکٹریاں اور کام بند پڑا ہوا ہے تو یہ ملازمین کیا کر
رہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ریلوے کے کمپیوٹرز پر تو دھول پڑی ہوئی ہے جبکہ میڈیا میں آرہا ہے کہ وزیر اعظم ریلوے میں کوئی اصلاحات کر رہے ہیں۔سیکرٹری ریلوے نے بتایا کہ 6 نکات پر اصلاحات کر رہے ہیں جبکہ 76 ہزار ملازمین کا کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا ہی موجود نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے تقریر نہ کریں، ہمیں سب پتہ ہے ریلوے میں کیا ہورہا ہے، ریلوے میں یا تو جانیں جاتی ہیں یا پھر خزانے کو کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے، پرسوں جو نقصان ہوا بتا دیں اس کی ذمہ داری کس کی ہے۔
انہوں نے سیکرٹری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ کرسی پر بیٹھ کر کام کریں، فیلڈ پر جاکر اپنے ملازمین کو دیکھیں، ریلوے کا سسٹم کرپٹ ہوچکا ہے۔عدالت نے سیکرٹری ریلوے کے بیان پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ریلوے میں مکمل اوور ہالنگ اور 76 ہزار ملازمین کی چھانٹیوں کا حکم دیا۔عدالت نے کہا کہ ریلوے، فوری طور پر اپنا اصلاحاتی عمل شروع کرے، غیر ضروری اور نااہل ملازمین کی چھانٹی کرے۔ عدالت نے ایک ماہ میں ریلوے ملازمین اور آپریشن سے متعلق تفصیلی رپورٹ بھی طلب کرلی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے کا پورا محکمہ اتنا کرپٹ ہے کہ سوچ بھی نہیں سکتے، 76 ہزار ملازمین سے ریلوے کبھی منافع نہیں دے سکتا، ہمیں ٹی ایل اے ملازمین کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ دیں۔