07اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار سلیم صافی اپنے کالم جنگ مگر ہتھیاروں کے بغیر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔’کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے‘ کا نعرہ نجانے کس ذہن کی تخلیق تھی لیکن اپنے آپ کو کبھی اس سے متفق نہیں پایا۔ لڑائی زمینی طاقتوں اور دشمنوں سے کی جاتی ہے اور انسانوں سے مقابلہ ہو تو مورال بلند رکھنے کے لئے ایسے نعرے بنائے اور لگائے جاتے ہیں لیکن قدرتی آفات اور وبائوں کی
صورت میں اللہ کے حضور عجز و انکساری اور توبہ و استغفار ہی اصل ہتھیار ہوا کرتے ہیں۔کورونا کی وبا نے چین جیسی طاقت کو چکرا اور امریکہ و برطانیہ کو نچوا دیا تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں جو کورونا سے لڑنے کا دعویٰ کرتے رہے۔ یقیناً ہمارے پاس ایٹم بم اور دیگر ہزاروں روایتی بم ہیں لیکن کورونا سے بموں کے ساتھ لڑائی نہیں ہو سکتی۔الحمدللہ ہم جہاز اور جدید سے جدید میزائل بنانے والے ملکوں کی صف میں شامل ہیں لیکن جہاز اور میزائل کورونا کے معاملے میں کسی کام نہیں آتے۔ ہماری فوج دنیا کی منظم ترین، طاقتور اور ایک بڑی فوج ہے لیکن کورونا سے لڑنا فوجوں کا نہیں بلکہ ڈاکٹروں کا کام ہے۔ اب ہم نے اپنے ملک میں اپنے پروفیشنلز اور ڈاکٹروں کے ساتھ جو رویہ اپنا رکھا تھا، اس کی وجہ سے ہمارے اکثر باکمال ڈاکٹر امریکہ، یورپ اور دیگر ملکوں میں خدمات سرانجام دینے پر مجبور ہیں۔ ہم انہیں وہ عزت اور سہولتیں ہی نہیں دے سکتے جو بیرونِ ملک ان کو حاصل ہوتی ہیں۔ تازہ ترین مثال پی کے ایل آئی کے ڈاکٹر سعید اختر کی ہے۔وہ شریف آدمی اپنے کروڑوں ڈالروں کی آمدن چھوڑ کر پاکستان آئے لیکن ثاقب نثار صاحب نے ان کو رسوا کرنے اور پی ٹی آئی نے ان کے پروجیکٹ کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یقیناً چند سو ڈاکٹر اربوں میں کما رہے ہیں لیکن مجموعی طور پر ہمارے ملک میں ڈاکٹروں کی حالت قابلِ رحم ہے۔ خصوصاً سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹروں اور دیگر اہلکاروں کی حالت افسوسناک ہے۔ اگر لڑائی اور جنگ کی اصطلاحات ہی استعمال کرنا ہیں
تو پھر طبی حوالوں سے ہمارے اسپتال چھائونیوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ہماری ان چھائونیوں کی حالت کس قدر ابتر ہے۔سہولتیں، طبی آلات اور ادویات تو ایک طرف، ہمارے اسپتالوں کی صفائی کی حالت بھی مغرب اور ترکی جیسے ممالک کے ٹائلٹوں سے زیادہ ابتر ہے۔ کورونا کے معاملے میں ڈاکٹر، نرسیں اور اسپتالوں میں کام کرنے والے دیگر اہلکار جن میں ٹیکنیشن سے لیکر خاکروب تک سب شامل ہیں،
فرنٹ لائن پر لڑنے والے سپاہیوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔باقی اسٹاف تو چھوڑیں ہم نے ڈاکٹروں کی بھی یہ حالت کر رکھی ہے کہ وہ ہمہ وقت ہڑتالیں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پنجاب میں ان کے ساتھ جوسلوک ہوتا رہا وہ تو سب کے سامنے ہے ،خیبر پختونخوا کے ینگ ڈاکٹروں کو بھی کچھ ہی عرصہ مبینہ طور پر قبل وزیراعظم کے کزن نوشیروان برکی کے حکم پر پولیس سے پٹوایا گیا اور پھر انہیں جیلوں میں ڈال کر
دہشت گردوں کے ساتھ بیرکس میں رکھا گیا۔اسی طرح کورونا کے معاملے میں ان سپاہیوں (ڈاکٹروں) کے ہتھیار خصوصی ماسکس، مخصوص حفاظتی لباس، ٹیسٹنگ کیٹس ، وینٹی لیٹر اور دیگر ضروری چیزیں ہیں لیکن جب یہ جنگ شروع ہوئی تو حفاظتی لباس تو درکنار ان ڈاکٹروں کے پاس منہ ڈھانپنے کیلئے ماسک بھی دستیاب نہیں تھے۔ گویا جنگ شروع ہو گئی اور نعرہ یہ لگایا گیا کہ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے
لیکن حالت یہ تھی کہ چھائونیاں مضبوط تھیں، سپاہیوں کے حالاتِ کار بہتر تھے اور نہ سپاہیوں کے پاس ہتھیار تھے۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ سینکڑوں ڈاکٹر اور نرسیں خود اس وبا کا شکار ہوگئے اور چند ایک تو شہادت سے بھی سرفراز ہوئے۔ ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر فرنٹ لائن پر لڑنے والے ان بہادر سپاہیوں نے لڑنے سے انکار کردیا تو پھر اس قوم اور کورونا کی وبا کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں رہے گی
لیکن افسوس کہ آج بھی ہم ان کی فریاد نہیں سن رہے۔وہ ہاتھ جوڑ کر لاک ڈائون کا مطالبہ کررہے ہیں لیکن حکومت ان کی نہیں سن رہی۔ انڈیا کے ساتھ جنگ ہویا پھر ملک کے اندر دہشت گردی کے خلاف جنگ، پوری قوم اور سیاسی و مذہبی قیادت وہی کچھ کرتی ہے جو فرنٹ لائن پر لڑنے والی فوجی قیادت تجویز کرتی ہے لیکن افسوس کہ کورونا کے معاملے میں کہیں سیاستدان فیصلے کررہے ہیں، کہیں مغرب سے آئے ہوئے
معاشی ماہرین اور کہیں مولانا صاحبان۔ اور تو اور جو کورونا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم قائم ہے، وہاں ہر روز ہونے والی میٹنگ میں بیٹھے شرکا بغیر ماسک پہنے نظر آتے ہیں حالانکہ دوسروں کے لئے مثال بننے کی خاطر تو ان میں کوئی بھی شخص بغیر ماسک کے نظر نہیں آنا چاہئے۔ بہر حال جو ہونا تھا ہو چکا، نہ ڈاکٹروں کی پکار سنی گئی اور نہ ہم جیسوں کی۔ حکومت اگر ملک بھر کے ڈاکٹروں کی التجائوں کے
باوجود لاک ڈائون کی طرف نہیں جا سکتی تو کم ازکم فوری طور پر چند اقدامات تو کرے۔کورونا سے ڈیل کرنے والے ہر ڈاکٹر، نرس اور خاکروب وغیرہ کو اعلیٰ ترین حفاظتی کٹس فراہم کی جائیں۔ سب کی تنخواہیں ڈبل کی جائیں۔ کورونا سے متاثر ہونے والوں کے لئے الگ الائونسز اور خاکم بدہن شہادت کی صورت میں بچوں کے لئے تمام صوبوں میں اسی طرح کے پیکیج انائونس کئے جائیں
جس طرح فورسز میں شہدا کو دیے جاتے ہیں۔تمام صوبوں میں یہ فیصلہ کیا جائے کہ کورونا کے مریضوں کی خدمت کے دوران شہید ہونے والے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر عملے کے افراد کو سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا جائے۔ ابھی تک حکومت میں صرف وزیراعظم کے چند ذاتی دوست ڈاکٹروں سے مشورہ کیا جاتا ہے اور وزیراعظم اس کی بنیاد پر رائے بناتے ہیں۔ کورونا کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر میں
ڈاکٹروں کی تنظیموں اور بالخصوص ماہر ڈاکٹروں کو بھی نمائندگی دی جائے اور روزانہ ان سے بھی مشاورت لی جائے۔ مکرر عرض ہے کہ کورونا سے فرنٹ لائن پر لڑنے والے سپاہی اگر غیر مسلح رہے یا پریشان رہے یا مالی مشکلات کا شکار رہے تو ہم یہ جنگ کبھی بھی نہیں جیت سکیں گے۔ اس لئے پہلی توجہ ان سپاہیوں اور ان کے ہتھیاروں پر مرکوز کرنی چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں وہ عزت دینا ہوگی جو قوم کی خاطر فرنٹ لائن پر لڑنے والے قومی ہیرو کو دی جاتی ہے۔