اسلام آباد (این این آئی) مشیر پٹرولیم ندیم بابر نے کہا ہے کہ گردشی قرض کو آئندہ سال دسمبر تک صفر کر دیا جائے گا،آئی پی پیز کا بجلی ٹیرف حکومت کی بجلی پیداواری کمپنیوں سے کم ہے،پرانے بجلی پیداواری اداروں کو بند کر دیں گے،جن آئی پی پیز کی مدت پوری ہو جائے گی ان سے دوبارہ معاہدہ نہیں کریں گے،آئندہ ڈیڑھ سال میں ساڑھے پانچ ہزار میگا واٹ کے آئی پی پیز سے دوبارہ معاہدہ نہیں کریں گے،
نیپرا مکمل خود مختار ادارہ ہے جو مشترکہ مفادات کونسل کو جوابدہ ہے،کے الیکٹرک کیخلاف کارروائی نیپرا کر سکتی ہے حکومت نہیں۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نجکاری کے اجلاس میں مشیر پٹرولیم ندیم بابر نے بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ سبسڈی ختم کرنے کا کوئی طریقہ کار نہیں رکھا،کے الیکٹرک کو گزشتہ 8 سالوں کی 70 ارب روپے کی سبسڈی ادا کرنا ہے،کے الیکٹرک نے 30 ارب سوئی سدرن کے اور 25 ارب روپے این ٹی ڈی سی ادا کرنا ہیں،کنڈا لگانے اور میٹر ٹیمپرنگ کو پکڑنے کیلئے لائیو سسٹم لگا رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے اس نظام کو دو ڈسکوز میں لگانے کیلئے 90 کروڑ ڈالر کا قرض دیا ہے،پیسکو اور سندھ میں کنڈا روکنے کیلئے ایرئیل بنڈل لگائے جا رہے ہیں،ڈسکوز میں چوری روکے نجکاری کی تو یہ گھاٹے کا سودا ہو گا،بڑی ڈسکوز کو چھوٹا کیا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ ماضی میں ڈسکوز میں نئی ٹیکنالوجی استعمال کو روکا گیا،لیسکو کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا کام شروع کر دیا،لیسکو اور آئیسکو کی نجکاری ڈیڑھ سال کے بعد شروع ہو گی ،ڈسکوز کو نجکاری سے پہلے منافع بخش بنایا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ گردشی قرض کو آئندہ سال دسمبر تک صفر کر دیا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ اگست 2018 میں بجلی سپلائی اور بل وصولی کا فرق 38 ارب روپے ماہانہ تھا جو اس سال اگست میں 9 ارب روپے ماہانہ پر ہے،عالمی بینک کے مطابق حکومت نے
825 ارب روپے کی سبسڈی وزارت پاور اور ڈسکوز کو ادا نہیں کی گئی،اس کی ادائیگی کیلئے مختلف تجاویز زیر غور ہیں۔ انہوںنے کہاکہ کچھ حصہ حکومت برداشت کرے گی کچھ نجکاری سے ادا کیا جائے گا،موجودہ سسٹم ابھی بھی مکمل ایفیشنی سے نہیں چل رہا،19 مقامات پر دشواریاں تھیں اب بھی 8 مقامات پر دشواریاں ہیں،ماضی میں ہم اصل لاگت وصول نہیں کر رہے تھے،2018 میں ہم 19 ہزار میگا واٹ تک
سپلائی کر سکتے تھے،اس سال گرمیوں میں 23 ہزار میگا واٹ بجلی فراہم کی۔ انہوںنے کہاکہ آئی پی پیز کا بجلی ٹیرف حکومت کی بجلی پیداواری کمپنیوں سے کم ہے،پرانے بجلی پیداواری اداروں کو بند کر دیں گے،جن آئی پی پیز کی مدت پوری ہو جائے گی ان سے دوبارہ معاہدہ نہیں کریں گے،آئندہ ڈیڑھ سال میں ساڑھے پانچ ہزار میگا واٹ کے آئی پی پیز سے دوبارہ معاہدہ نہیں کریں گے،
ایسا کرنے سے بجلی ٹیرف میں ڈیڑھ روپے فی یونٹ کمی ہو گی،ایک آئی پی پی جس کے ساتھ معاہدہ کی مدت پوری ہو گئی اس کے ساتھ دوبارہ معاہدہ نہیں کیا۔ندیم بابر نے کہاکہ نیپرا مکمل خود مختار ادارہ ہے جو مشترکہ مفادات کونسل کو جوابدہ ہے،کے الیکٹرک کیخلاف کارروائی نیپرا کر سکتی ہے حکومت نہیں۔ انہوںنے کہاکہ گزشتہ تین سالوں میں کے الیکٹرک میں نئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی،
اگر حکومت مدد نہ کرے تو دو سالوں میں کے الیکٹرک کراچی کی آدھی ضروریات پوری نہ کر سکے،کے الیکٹرک کو اس وقت 850 میگا واٹ بجلی فراہم کر رہے ہیں،کے الیکٹرک کو ایک ہزار میگا واٹ بجلی مزید فراہم کر سکتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ کے الیکٹرک کی کارکردگی خراب ہونے کی بنیادی وجہ فروخت کا معاملہ حل نہ ہونے کے باعث ہے۔ حکام پاور ڈویژن نے کہاکہ کے الیکٹرک کو
کے ٹو اور کے تھری سے 500 میگا واٹ بجلی فراہم کر سکتے ہیں ،کے الیکٹرک ابھی مزید بجلی لینے کی پوزیشن میں نہیں ۔انہوںنے بتایاکہ کے الیکٹرک آئندہ سال اپریل میں مزید بجلی لے سکے گی ،5 ڈسکوز میں جدید نظام لگانے کیلئے انکو سی پیک میں شامل کروانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔سیکرٹری نجکاری کی کمیٹی کو بریفنگ نے کہا کہ ان پلانٹس کی فروخت کیلئے چین قطر اور
ملائیشیا میں روڈ شو منعقد کیے جائیں گے،ایل این جی کے دو پاور پلانٹس کی نجکاری کیلئے بولی فروری میں منعقد کی جائے گی،حکومت نے نجکاری سے 150 ارب روپے کی آمدن کا اندازہ لگایا ہے۔ انہوںنے کہاکہ رواں مالی سال 18 اداروں نجکاری کیلئے رکھا گیا ہے ،کوشش ہے کہ کم از کم 12 کی نجکاری اس سال کر دی جائے،حکومت نے نجکاری آمدن کا نیا ہدف 300 ارب روپے مقرر کیا ہے۔
انہوںنے کہاکہ پاکستان اسٹیل مل کو گزشتہ سال اکتوبر میں نجکاری کی فہرست سے نکال دیا گیا،اس سال اپریل میں وزارت صنعت و پیداوار نے اسٹیل مل کی بحالی کا پلان دیا۔ انہوںنے کہاکہ اس سال جون میں اسٹیل مل کو دوبارہ نجکاری کی فہرست میں شامل کیا گیا،اسٹیل مل کی بحالی کیلئے نجکاری کا کام آئندہ سال مارچ تک مکمل کر لیا جائے گا،اسٹیل مل 2015 سے بند ہے اس کے اکاؤنٹ بھی نہیں ہے،
اسٹیل مل کی نئی انتظامیہ اسکی تمام قانونی اور مالی انتظامات مکمل کرے گی ۔وفاقی وزیر محمد میاں سومرو نے بتایاکہ اسٹیل مل کی نئی انتظامیہ اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ مل کی اراضی پر قبضہ ہو رہا تھا ،مل بند ہے اس کے انتظامی معاملات کو دیکھنے کیلئے لوگ چاہیں ہیں،اسٹیل مل بند ہونے کے باوجود بھی 5 کروڑ روپے روزانہ کے نقصانات ہو رہے ہیں