ہفتہ‬‮ ، 28 جون‬‮ 2025 

اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے اور انہوں نے مینار پاکستان پر کھڑے ہو کر کیا الفاظ کہے تھے ؟مودی کا جو یار ہے وہ غدار ہے ، یہ نعرہ نواز شریف کیساتھ کب ، کیوں اور کیسے جڑگیا ؟ اندرونی کہانی کھل کر سامنے آگئی

datetime 26  ‬‮نومبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار الطاف حسین قریشی اپنے کالم ’’پھر تیرا وقت ِسفر یاد آیا‘‘میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔2013ء میں نوازشریف تیسری بار وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔ اُن کی حکومت جس تیزی سے سی پیک کے منصوبوں پر عمل پیرا تھی اور ساتھ ہی ساتھ بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کوشاں تھی، اس نے حریف سیاسی جماعتوں میں تشویش پیدا کر دی ۔ ذاتی تعلقات کی بنیاد پر

نریندر مودی اُن کی نواسی کی شادی میں خود چل کر جاتی امرا آئے۔ اِس سے پہلے جنوری 1999ء میں وزیراعظم واجپائی دوستی بس کے ذریعے لاہور آئے تھے اور اُنہوں نے مینارِ پاکستان پر پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کے احترام کا اعلان کیا تھا۔ تب ہی مختلف ایشوز سامنے آنے لگے اور نواز شریف کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے یہ نعرہ گونجنے لگا ’مودی کا جو یار ہے، پاکستان کا غدار ہے‘۔ پھر یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ شریف برادران ملک لُوٹ کر کھا گئے ہیں۔ اِسی دوران پاناما لیکس کا غلغلہ بلند ہوا اور عدالتِ عظمیٰ نے اُنہیں پاناما کے بجائے اقامہ پر عمر بھر کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ احتساب عدالت نے اُن کی غیر موجودگی میں سات سال کی سزا سنا دی۔ وہ اُس وقت اپنی بیٹی مریم کے ساتھ لندن میں تھے جہاں اُن کی اہلیہ کلثوم نواز بسترِ مرگ پر تھیں۔ سزا کی خبر سن لینے کے بعد وہ دونوں باپ بیٹی سزا بھگتنے کے لیے لاہور چلے آئے اور پھر جیل سے اُنہیں گرفتار کرکے نیب اپنے عقوبت خانے میں لے آیا جہاں اُن پر کئی بیماریوں نے یلغار کر دی۔ سرکاری ڈاکٹروں کے مختلف بورڈز نے بار بار رپورٹ دی کہ اُنہیں علاج کے لیے ملک سے باہر بھیجنا ضروری ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی بیماری کی شدت کا پورا اِحساس ہو گیا اور اُنہوں نے باہر جانے کی اجازت بھی دے دی مگر اُن کے بعض مشیروں نے سات ارب روپے کا بانڈ بھرنے کی شرط لگا دی۔ مرض کی سنگینی کے باعث

مریض کے خاندان پر ایک ایک لمحہ بھاری تھا۔ تاہم انہیں جانے کی اجازت دے دی گئی۔ نواز شریف کے وقتِ سفر کے مناظر اب آنکھوں میں سما گئے ہیں اور مخالفوںنے جو انسان دشمن روش اپنائی ہے، اس پر افسوس ہی کیا جاسکتاہے۔اب مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ نے ہوا کا رخ تبدیل کر دیا ہے اور اِقتدار کے پتے ایک ایک کر کے جھڑتے محسوس ہورہے ہیں۔ وزیرِاعظم عمران خان نے طیش میں آکر جو تقریر کی ہے، اس نےبڑے گہرے زخم لگائے ہیں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



سٹوری آف لائف


یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…