اسلام آباد( آن لائن ) انڈس ریور سسٹم اتھارٹی نے جون کے مہینے میں ملک میں پانی کی کمی کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ جولائی کے بعد صورتحال اب بہتر ہوگئی ہے اور صوبوں کے لیے وافر مقدار میں پانی موجود ہے۔
ارسا سندھ کے رکن مظہر علی شاہ نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی غذائی تحفظ کو بتایا کہ ‘ڈیموں میں بارش کا پانی بھی شامل ہوتا ہے تاہم یہ زیادہ تر برف کے پگھلنے سے بھرتے ہیں، بدقسمتی سے اس سال پارا اتنا زیادہ اوپر نہیں گیا جس کی وجہ سے دریائوں میں 15 جون تک پانی کم ہوگیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پانی کے ذخائر میں اضافے کے بعد سے اب صوبوں کے لیے وافر مقدار میں پانی موجود ہے۔اس اجلاس کی صدارت پاکستان مسلم لیگ(ف)کے سینیٹر مظفر حسین شاہ کر رہے تھے جو پارلیمنٹ ہائوس کے کمیٹی روم میں منعقد ہوئی۔چیئرمین کا کہنا تھا کہ جون اور جولائی کے درمیان سندھ میں پانی کی کمی کا سامنا تھا جس کی وجہ سے سانگھڑ، میرپور خاص اور بدین میں کپاس کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا۔ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے زیادہ تر کسانوں سے یہی سنا ہے کہ انہیں رواں سال پانی کی قلت کی وجہ سے پریشانیاں اٹھانی پڑی ہیں۔تاہم انہوں نے دعوی کیا کہ یہ مسئلہ 15 جون تک تھا جس کے بعد دریائوں میں پانی کے شامل ہونے سے صورتحال بہتر ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘جولائی کے مہینے میں ہمارے پاس مانگ سے بھی زیادہ پانی تھا، فی الوقت تربیلا ڈیم تقریبا بھر چکا ہے، منگلا ڈیم میں تھوڑا ہی کم پانی ہے جو مزید بارشوں کے ساتھ بھر جائے گا۔
وزارت قومی غذائی تحفظ نے کمیٹی کو بتایا کہ کاٹن کی پیداوار زیادہ ہونے کے باوجود 100 فیصد کا ہدف پورا نہیں ہوسکے گا، پنجاب 95 فیصد اور سندھ 96 فیصد ہدف حاصل کرلے گا جس سے مجموعی پیداوار 95.5 فیصد ہوگی۔کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ 100 فیصد کا ہدف حاصل کرنے میں ناکامی سے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی، حکومت کو کاٹن کی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘صنعت کاروں کو بینک سے کروڑوں روپے کے قرض مل جاتے ہیں مگر کسان 200 ایکڑ زمین رکھنے کے باوجود صرف 4 لاکھ تک قرض حاصل کرپاتے ہیں، اس وقت ٹریکٹر کی قیمت 16 لاکھ سے زائد ہے جبکہ کسانوں کو مزدوروں، کھاد اور دیگر اخراجات بھی نکالنے ہوتے ہیں، زمین کے بدلے قرض کی لاگت پر نظر ثانی کی جانی چاہیے’۔زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ کے نمائندے کا کہنا تھا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران انہوں نے 15 ارب روپے قرض کے لیے رکھے تھے جبکہ رواں مالی سال کے لیے انہوں نے 18 ارب روپے کا بجٹ رکھا ہے۔