اسلام آباد( آن لائن )سپریم کورٹ نے ڈیمز فنڈ میں موجود رقم کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے، عدالت نے اسٹیٹ بنک کو فنڈ میں موجود 10 ارب 60 کروڑ روپے نیشنل بنک کو منتقل کرنے کا حکم دیا ہے. عدالت کے مطابق 19 جون کو ٹی بلز کی نئی بولی کے بعد منافع کی شرح کا اعلان ہوگا، نیشنل بنک سپریم کورٹ کی جانب سے بولی میں حصہ لے گا
جب کہ طے شدہ شرح منافع پر ڈیمز فنڈ کی ٹی بلز میں 3 ماہ کے لیے سرمایہ کاری ہوگی.واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے حکم جاری ہونے کے بعد وفاقی حکومت نے دو ڈیمز دیامیربھاشا اورمہمند کی تعمیرکے لیے فنڈز قائم کیے تھے جس میں پاک فوج، سرکاری ملازمین، قومی کھلاڑیوں، اداکاروں اور سماجی شخصیات سمیت عام افراد نے پیسے جمع کرائے تھے. واضح رہے کہ 12جون کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے جسٹس عظمت سعید نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ اس کی تمام تر ذمہ داری اسٹیٹ بینک آف پاکستان پر عائد ہوتی ہے کہ دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کے لیے جمع ہونے والے 10 ارب 60 کروڑ روپے کے فنڈز کی بروقت سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث سپریم کورٹ کو سود کی مد میں تقریبا ایک کروڑ روپے روزانہ کا نقصان ہورہا ہے.سپریم کورٹ کے عملدرآمد بینچ نے دیامر بھاشا اور مہند ڈیم کے معاملے پر اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ عدالت اس کی مستقل سرمایہ کاری کا تعین ہونے تک مذکورہ فنڈز کی 2، 3 یا 7 دن کی مختصر مدت کے لیے سرمایہ کاری کرسکتی ہے. جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی مرکزی بینک پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ اندازہ لگائیں کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے عدالت کو درست مشورہ نہ ملنے کے باعث گذشتہ 3 ماہ میں ہمیں کس قدر نقصان ہوا ہے ۔
مذکورہ نقصان کے حوالے سے سیکرٹری قانون انصاف کمیشن پاکستان ڈاکٹر رحیم اعوان نے عدالت عظمی کو آگاہ کیا، انہوں نے بتایا کہ ٹریژری بلز کے ساڑھے 3 ارب روپے کی سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے کمیشن کو سود کی مد میں روزانہ 35 کروڑ روپے کا نقصان ہورہا ہے.انہوں نے بتایا تھا کہ کمیشن برائے قانون و انصاف کی طرح سپریم کورٹ کو بھی ڈیم فنڈ میں سود کی مد میں روزانہ تقریبا ایک کروڑ روپے کا نقصان ہورہا ہے. اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک کے نمائندے محمد علی ملک عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ سپریم کورٹ کی اپیل پر اکٹھے ہونے والے فنڈز اسٹیٹ بینک کے پاس ہیں جو کبھی بھی فنڈز جمع کروانے پر سود نہیں دیتاجس پر جسٹس عظمت سعید نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ یہی وجہ ہے کہ اسٹیٹ بینک عدالت کا وقت برباد کررہا ہے کیوں کہ اس طرح کے فنڈز جمع ہونے پر سود نہیں دیا جاتا۔