اسلام آباد(آن لائن) وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ عبد الحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ قرضوں کیوجہ سے ملکی کرنسی دباؤ کا شکار ہے۔ملک دہرے خسارے کا شکار ہے جس سے نمٹنا نا گزیر ہے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک کو سابق حکومتوں نے قرضوں کو دلدل میں پھنسایا مشکل صورتحال سے نکلنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔غیر ملکی معاونت سے ملکوں کو خوشحال نہیں بنایا جاسکتا اداروں کو مضبوط کر نا ہو گا
حکومت نے اقتدارسنبھالا تو معیشت زبوں حالی کا شکار تھی۔ معاشی استحکام کیلئے مثبت اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ آیندہ بجٹ میں لوگوں کی امیدوں پر پوری اتریں گے۔ معیشت کو استحکام کے لیے سخت پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا امیر ٹیکس ادا کرنا نہیں چاہتا، اگر ٹیکس جمع نہیں کر سکے تو اخراجات پورے نہیں کر پائیں گے۔اسلام آباد میں اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 5 سالوں میں ہماری ڈالر کمانے کی طاقت صفر رہی ہے جبکہ برآمدات کی شرح میں اضافہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ عوام کے سامنے ملکی اقتصادی صورتحال کی صحیح تصویر پیش کی جائے اور جو اس معیشت کو استحکام دینے کے لئے اقدامات لئے جا رہے ہیں اس سے متعلق عوام کو آگاہ کیا جائے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو خطرات لاحق ہیں جس کے باعث روپے پر دباؤ ہے، ہمارے پاس قرضہ واپس کرنے صلاحیت نہیں ہے تاہم اس کی بہتری کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔حفیظ شیخ نے کہا کہ پاکستان میں ھر طرح کے معدنی زخائر ہیں، زرعی زمین ہے پہر بھی ایسی کون سی چیز ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف جاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی سروے اس سال کا جائزہ ہے،کیا وجہ ہے کہ معیشت کیوں ایسی ہے، ھم کیوں ایسی صورتحال میں ہیں۔انہوں نے کہا کہ سابق حکومتوں 31 ہزار ارب روپے کے قرض لئے جن پر ہمیں تین ہزار ارب روپے کا سود دینا پڑے گا۔
مشیر خزانہ نے کہا کہ ہمیں جو اصلاحات کرنے چاہئے تھی وہ نہیں کئے گئے جبکہ پچھلی حکومتوں نے درآمدات بڑھانے کی بھی کو شش نہیں کی۔نہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسایا مگر گزشتہ 5 سال کے دوران برآمدات کی شرح میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ماضی کی حکومتوں نے دیگر ذرائع سے بھی 100 ارب ڈالر قرض لے رکھے تھے انہوں نے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 بلین ڈالر کی تاریخی سطح پر پہنچ گیا
جبکہ تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر ہو گیا کافی عرصہ سے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی گئی ریفامسز نہیں لائی گئیں ماضی کی حکومتوں نے ملکی آمدن کو بڑھانے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا قرضوں کی وجہ سے ملکی کرنسی دباؤ کا شکار ہیان کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر رہا ہے، گزشتہ حکومت کے آخری سال میں 2 ھزار 3 سو ارب روپے آمدنی سے زیادہ خرچ کئے گئے۔حفیظ شیخ نے بتایا کہ ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا، وہ ہی ملک لوگوں کو خوشحالی دے سکے
جنہوں نے چیزیں باھر بیچیں۔اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی حکومتوں نے جوریفارمزکرنا تھی نہیں کی۔ میرا مقصد بلیم گیم کرنا نہیں۔ ملکی معاشی استحکام کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے 31 ہزار ارب کے قرضے لیے۔ ماضی کی حکومتوں نے ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسایا۔عبد الحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ مشکل صورتحال سے نکلنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔ معیشت کو استحکام کے لیے سخت پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ معیشت کو آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ فروری 2019 میں پاک بھارت کشیدگی سے سرمایہ کاری متاثر ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی اقتصادی سروے میں اعداد وشمار سو فی صد حقائق پر مبنی ہیں۔ سروے میں معیشت کی کمزوریوں کو اجاگر کیا گیا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ یہاں کیوں کھڑے ہیں، تمام وسائل کے باوجود کیا چیز مسنگ ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں، آخر کیا وجہ ہے کہ ہم کیوں معاشی دقت میں ہیں، عوام کو بتانا ہوگا کہ اس صورتحال میں کیوں ہیں، قرض اتنے ہوچکے کہ آئندہ سالوں میں تین ہزار ارب ان کا سود دینا پڑے گا، باہر سے جو قرضے لئے وہ 100 ارب ڈالر ہیں۔مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ماضی کی حکومتوں نے معیشت کی بہتری کے اصلاحات نہیں کیں، کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ ریکارڈ 20 ارب ڈالرتک پہنچ گیا۔ تجارتی خسارہ بھی 32 ارب ڈالرکی حد عبور کر گیا۔ آمدنی اور اخراجات میں کئی سو ارب کا فرق ہے۔ اس فرق کوپورا کرنے کے لیے ٹیکسوں کا دائرہ بڑھائیں گے۔